اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں مسترد، سپریم کورٹ نے فوجی عدالتیں برقرار رکھنے کا حکم دے دیا

315256-Armycourts-1420217792-828-640x480

کچھ عرصہ قبل ہونے والے افسوس ناک واقعہ "سانحہ پشاور” کے بعد پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے ملک کو امن کی راہ پہ لانے کا حل نکالنے کے لئے سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے کئی مشاورتی اجلاس بھی ہوئے۔

بلا آخر سیاسی قیادت اکیسویں ترمیم لانے میں کامیاب ہوگئی ۔ 2جنوری جمعہ کے دن آل پارٹیز کانفرنس میں اس ترمیم کا مسودہ پیش کیا گیا۔ کانفرنس میں موجود سیاسی رہنمائوں نے بیس نکات پر مشتمل مسودے کو حتمی شکل دی تھی۔

اس بل میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175 کی شق (3) میں ترمیم کی جائے گی۔ جنگ کی صورتحال سے نمٹنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 245 کے ذریعے پاک فوج کو دیئے گئے اختیارات سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015ء میں بھی ترمیم کے لئے پیش کردہ بل میں ترمیم کے بعد کسی بھی دہشتگرد گروپ یا اس سے تعلق رکھنے والے شخص جو مذہب یا مسلک کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے گا یا مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر حملہ کرے گا ،کسی سول یا فوجی تنصیبات پر حملہ میں ملوث ہوگا یا اغواء برائے تاوان کے لئے کسی شخص کو قتل یا زخمی کرے گا ’ بارودی مواد کی نقل و حمل اور اسے ذخیرہ کرنے میں ملوث ہوگا’ خودکش جیکٹس یا گاڑیوں کی تیاری میں ملوث ہوگا یا کسی بھی قسم کے مقامی یا عالمی ذرائع سے فنڈنگ فراہم یا مہیا کرے گا’ اقلیتوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہوگا تو اس کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔ اس ضمن میں فرسٹ شیڈول پارٹ ون (III) کے شیڈول کی شق پانچ کے بعد شق 6 پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء ’ پاکستان ایئرفورس ایکٹ 1953ء ’ پاکستان نیوی آرڈیننس 1961ء اور تحفظ پاکستان ایکٹ 2014ء ’ 4 نئی شقیں شامل کی جائیں گی۔ یہ ترمیم دو سال تک کے لئے موثر باعمل رہے گی۔ اور دو سال بعد یہ ازخود منسوخ تصور کی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں کی گئی اکیسویں ترمیم میں مزید ترمیم کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ لفظ فرقہ سے مراد مذہب کا کوئی فرقہ ہے اور اس میں قانون کے تحت منضبط کوئی سیاسی جماعت شامل نہیں۔

ایوان نے اس تحریک کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی۔ تحریک کے حق میں 247 جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی گئی۔ وزیر قانون سینیٹر پرویز رشید کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم اتفاق رائے سے منظور کرلی گئیں جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے جمع کرائی
گئی ترامیم اراکین کی عدم موجودگی کی وجہ سے ڈراپ کردی گئیں۔

کچھ مذہبی حلقوں اور دیگر لوگوں کی جانب سے اس ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور عدالت میں ترمیم کے خلاف درخواستیں دائر کی گئیں۔ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا گیا- درخواست گزاروں میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلا تنظیمیں بھی شامل تھیں ۔

درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا کہ فوجی عدالتوں کا قیام موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، فوجی عدالتی نظام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے آج اٹھارہویں اور اکسیویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کو خارج کر دیا گیا ہے ۔ ترمیم کے حق میں 11 جبکہ مخالفت میں 6جج نے فیصلہ دیا جبکہ 18ویں ترامیم کے حق میں 14جبکہ مخالفت میں 3ججز نے فیصلہ دیا ۔ لہذا تمام درخواستیں اکثریت رائے سے مسترد کر دی گئیں اور فوجی عدالتوں کے قیام کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے