تو کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ایر بلیو کے مالک جناب شاہد خاقان عباسی کے وزیر اعظم بنتے ہی پی آئی اے کی امریکہ کے لیے پروازیں بھی بند کر دی گئیں؟ اللہ جانے اب روز ویلٹ ہوٹل کا کیا بنے گا ۔
حسن کمالات دیکھیے ایر بلیو ترقی کر رہی ہے لیکن پی آئی اے کا پورے اہتمام سے ستیا ناس کیا جا رہا ہے ، پاکستان سٹیل مل تباہ ہوچکی لیکن اتفاق فاؤنڈری والوں کے کاروبار دو پہر دگنی اور سہ پہر چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔قومی خزانہ خالی ہے لیکن وزیر خزانہ کے اثاثوں میں یوں اضافہ ہو رہا ہے کہ معلوم انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔پارلیمان کے باہر نہیں تو کم از کم وزرائے کرام کے دفاتر کے باہر اب لکھوا کر آویزاں کر دیجیے کہ :’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔کیا یہ ابن خلدون ہی تھا جس نے کہا تھا بد قسمت ہے وہ قوم جس نے زمام کار تاجروں کے حوالے کر دی؟تاجر اور پھر تجربہ کار، اب اگر پی آئی اے کا پورا جہاز ہی غائب ہو جاتا ہے تو حیرت کیسی؟ تجربہ اگر ہے تو بروئے کار تو آئے گا۔
چٹ سامنے رکھ کر بھی جناب نواز شریف اقبال ؒ کا شعر غلط پڑھ گئے۔ طرز کہن پہ ’’ اُڑنا‘‘۔طرز کہن کو بھی انہوں نے شاید کسی نجی ائر لائن کا جہاز ہی سمجھ لیا ہو۔پروفیسر احسن اقبال بھی آج کل زلف یار کی طرح برہم ہیں ۔طرز حکومت پر مگر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں ۔سب گویا طرز کہن پہ ’’ اُڑ‘‘ رہے ہیں ۔تجربہ ہے کہ کسی بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح مائل بہ کرم ہے۔ابھی کل ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ صنعتکاروں کو 140 ارب کی سبسڈی دی گئی ہے اور 340 ارب کے قرضے معاف کر دیے گئے ہیں۔یہ صنعتکار کون ہیں ؟ کسی دن ان کی شناخت سامنے آگئی تو معلوم ہو جائے گا نواز شات کے دریاؤں کا رخ کس سمت میں بہہ رہا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔
حکومتی ایم این اے نجف سیال کو برین ہیمرج ہوا۔اور مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی شیخ فیاض الدین کی گواہی ہے کہ جب وہ نجف سیال کو لے کر پمز پہنچے تو وہاں وینٹی لیٹر نہیں تھا۔قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر انہوں نے یہ نکتہ اعتراض اٹھایا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔رینگ بھی کیسے سکتی ہے کہ تجربہ طرز کہن پہ ’’ اُڑ‘‘ رہا ہے۔پمز میں باقاعدہ اجازت دی جا چکی ہے کہ ڈاکٹرز شام کو یہیں پرائیویٹ مریضوں کو چیک کر لیا کریں۔کیا خبر مشین کسی پرائیویٹ مریض کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہو یا خراب ہو کر کباڑ بن چکی ہو اور کسی کو پرواہ ہی نہ ہو۔وی آئی پیز کے لیے یا صحافیوں کا منہ بند کرنے کے لیے ویسے ہی یہاں ایک عدد’’ کرٹسی سنٹر‘‘ ہے ۔وہاں جائیے اور مفت علاج کرائیے۔عام آدمی تو چلا جائے تو ڈاکٹرز کے چہروں پر تکلیف کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں کہ بد بخت کو مفت میں چیک کرنا پڑے گا۔ایک منظم طریقے سے مریضوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ دن کے اوقات میں نہ آئیں شام میں آئیں جب سرکاری ہسپتال کی سرکاری عمارت میں سرکاری وسائل استعمال کر کے پرائیویٹ پریکٹس کی جاتی ہے۔شیخ فیاض الدین نے کبھی اس کرٹسی سنٹر پر یا باہر لائنوں میں دھکے کھاتے عوام پر تو آواز نہیں اٹھائی۔بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ شہباز شریف صحت کے شعبے میں انقلاب کے دعوے فرماتے ہیں لیکن خود ان کا خاندان اپنے ملک کے کسی ہسپتال میں علاج کروانا پسند نہیں کرتا۔نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز بھی برطانیہ سے علاج کروا رہی ہیں اور شہباز شریف بھی علاج کے لیے بیرون ملک ہسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
پنجاب میں شفافیت کا بہت ڈھول پیٹا جاتا ہے۔حالت یہ ہے کہ میڈیکل انٹری ٹیسٹ کا پرچہ لیک ہو جاتا ہے۔کی کو پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ تجربہ طرز کہن پر ’’ اُڑ‘‘ رہا ہوتا ہے ۔وہ زمین پر اترے تو کوئی اس سے ہمکلام ہو۔چنانچہ ایک طالبہ ہائی کورٹ سے رجوع کرتی ہے اور عدالت اس انٹری ٹیسٹ کو کالعدم قرار دے کر نئے ٹیسٹ کا حکم دیتی ہے۔یہ تو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ کہیں عدالت کے اس حکم سے جمہوریت کو نزلہ ، زکام ، کالی کھانسی، تپ دق ، خسرہ یا تشنج جیسے مہلک امراض تو لاحق نہیں ہو گئے لیکن یہ خبریں ہم سب پڑھ چکے کہ عدالت کے اس حکم کے باوجود تجربہ طرز کہن پر ’’ اُڑ‘‘ رہا ہے اور صوبائی وزیر صحت ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک عدد نائب قاصد گرفتار کر لیا ہے۔شفافیت کے لیے حکومت کا خلوص دیکیے اتنا اہم عہدیدار گرفتار کر لیا، نائب قاصد گرفتار ہو گیا۔آپ ہی بتائیے اب حکومت اور کیا کرے؟دکھاوے کے لیے وائس چانسلر کو بدل تو دیا گیا لیکن اس وائس چانسلر کی شان و شوکت دیکھیے کہ نئے وائس چانسلر نے ان سے اپنے دفتر میں ایک گھنٹہ طویل ملاقات فرمائی ہے اور مختلف معاملات پر تبادلہ خیال فرمایا ہے۔تاہم پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، دونوں نے مل کر جو فرمایا ہے وہ صرف تباد لہ خیال ہے۔
اہل دربار کو رینجرز ایک ملزم کے ساتھ عدالت میں جانے سے روک دیں تو احسن اقبال گنڈاسہ لہراتے پہنچ جاتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ پولیس کو بہتر کرنے کے لیے ان کی حکومت نے کیا کام کیا؟ آج بھی اسلام آباد جیسے شہر میں صورت حال یہ ہے کہ ناکے لگا کر سیکیورٹی فرمائی جاتی ہے۔ایک ایک ناکے پر گاڑیوں کی لمبی لائنیں اور صرف دو اہلکار جو آنے جانے والے کو گھور کر امن و امان کو یقینی بنا رہے ہوتے ہیں۔کوئی ایک ڈھنگ کا جدید آلہ کبھی ان کے پاس نہیں دیکھا گیا۔گرمیوں میں ان کے پاس پینے کے ٹھنڈے پانی تک کا انتظام نہیں ہوتا۔امن عامہ کو یقینی بنانا ہے تو پولیس کو جدید خطوط پر تربیت دینا ضروری ہے۔فوج صرف یہ کر سکتی ہے کہ کسی بھی علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر سکتی ہے اس کے بعد کا سارا کام تو سول انتظامیہ نے سنبھالنا ہے ۔ رینجرز پر تبرا کرتی زبانیں ذرا بتائیں گی کہ یہ سول ڈھانچہ آج کس حال میں ہے؟اور اس سوال پر بھی ذرا روشنی ڈال دیں کہ اس کی تباہی میں کس کا ہاتھ ہے؟
گڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ مختلف یونیورٹیوں کے 115جعلی کیمپس اعلانیہ ملک میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔بس ایچ ای سی ایک عدد ہومیو پیتھک سی وارننگ جاری کر دیتی ہے، وہ بھی طلباء اور والدین کے نام ۔نادرا کا افسر قابوس عزیز نیب کو وزیر خزانہ کے خلاف ثبوت دیتا ہے تو ملازمت سے برخواست کر دیا جاتا ہے۔قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے چیئر مین دہائی دے رہے ہیں کہ چیئر مین نیپرا انہیں دھمکی آمیز پیغامات بھجوا رہے ہیں۔صاف پانی کے پراجیکٹ میں شفافیت کا یہ عالم ہے کہ لاہور ہائی کورٹ تفصیلات مانگ رہی ہے اور پنجاب حکومت دے نہیں رہی۔عدالت کو کہنا پڑا یہ پانی کی کمپنیاں ہیں یا ایسٹ انڈیا کمپنی کہ ان کے سی ای او کو 25, 25 لاکھ تنخواہیں دی جارہی ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔نور الامین مینگل ڈی جی فوڈ ہیں، ان کا تعلق بلوچستان سے ہے ، وفاق نے انہیں بلوچستان بھیجا وہ عدالت چلے گئے۔عدالت نے ان کی درخواست رد کر دی تو پنجاب حکومت ان کی مدد کو آ گئی کہ یہ ہمیں پنجاب میں چاہییں۔سوال یہ ہے کہ بعض افسران آپ کے لیے اتنے ناگزیر کیوں؟۔افسروں کو گریڈ بائیس میں ترقی دی جاتی ہے تو جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو نا معلوم وجوہات پر ترقی نہیں دی جاتی لیکن فواد حسن فواد ترقی دینے والے بورڈ میں بیٹھ کر فیصلے فرما رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کا اپنا نام ترقی لینے کے امیدواروں میں شامل ہوتا ہے۔یعنی صاحب خود ہی مدعی ہیں اور خود ہی منصف بھی۔یہ سب تماشے صرف اپنے ملک میں ہی ہو سکتے ہیں جہاں تجربہ طرز کہن پر ’’ اُڑ ‘‘ رہا ہے۔