میڈیا کی خرابی کا ذمہ دار کون؟؟

ایک نجی ٹی وی چینل میں حال ہی میں نشر ہونے والے اپنے انٹرویو کے دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی میڈیا خصوصاً ٹیلی ویژن چینلز کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دن پہلے اُنہوں نے پیمرا کے اعلیٰ عہداروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں انہوں بتایا گیا کہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کے خلاف مختلف خلاف ورزیوں کے ضمن میں نوٹسز جاری کئے لیکن ان نوٹسز کے جواب میں ٹی وی چینلز عدالتوں سے اسٹے لے لیتے ہیں اور یوں قانون اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے باوجود پیمرا کوئی ایکشن نہیں لے پاتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں پیمرا چیئرمین نے بتایا ہے کہ اس وقت پیمرا کو مختلف عدالتوں کی طرف سے جاری کئے گئے تقریباً800 اسٹے آرڈرز (حکم امتناہی) کا سامنے ہےجس کی سبب پیمرا کی نہ صرف رٹ ختم ہو چکی ہے بلکہ کروڑوں روپے ان کیسوں کی پیروی میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے چیئرمین پیمرا کو ہدایت دی ہے کہ وہ تمام عدالتی کیس واپس لے لے ۔ یعنی قانون اور ضابطہ کی خلاف ورزی کرنے والے تمام چینلز کے خلاف عدالتی کارروائی سے پیمرا پیچھے ہٹ جائے تا کہ کم از کم وکیلوں کو دی جانے والی کروڑوں روپے کی فیس تو بچ جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پیمرا کی کارروائی نے اگر عدالتوں کی مداخلت پر اسٹے ہی ہو جانا اور ان اسٹے آرڈرز پر سالوں فیصلہ بھی نہیں ہونا تو پھر بہتر ہے مزید پیسہ ضائع نہ کرو۔ اس عدالتی نظام کے سامنے پیمرا اور حکومت کی اس بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے، شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی کہا کہ ہم تمام کیس واپس لے رہے ہیں کیوں کہ جس کے ساتھ میڈیا نے زیادتی کی اگر اُسے وقت پر انصاف نہیں ملنا تو پھر عدالت میں جانے اور کیس لڑنے کا کیا فائدہ۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کو کھلی چھٹی ہے جو مرضی آئے کرے۔ یعنی جس پر مرضی ہے بہتان تراشی کرے، جھوٹے الزام لگائے،اگر کسی کو شر پھیلانا ہے اور فتنہ بازی کرنی ہے تو اُسے بھی کھلی چھٹی، اگر کسی نے نفرت پھیلانی ہے اور لوگوں کو کسی فرد یا افراد کے خلاف اشتعال دلوانا ہے تو اُس پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ وزیر اعظم نے جس بے بسی کا اظہار کیا ہے یہ اگر خصوصاً عدلیہ اور میڈیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز نے اپنی آزادی کا بے حد غلط استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی اگر ایک طرف ذمہ داری میڈیا مالکان اور صحافی برادری پر آتی ہے تو دوسری طرف عدلیہ کا اس خرابی میں بہت اہم کردار ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا پیمرا جب بھی کسی بھی چینل کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور یہ کارروائی چاہے کتنی ہی سنگین خلاف ورزی پر ہو، چینل کو باآسانی عدالتوں سے اسٹے آرڈر مل جاتا ہے اور یوں پیمرا کو بے بس بنادیا گیا ہے۔ نہ کسی چینل کو قانون و ضابطہ کی خلاف ورزی پر سزا ملتی ہے اور نہ ہی کسی اینکر کو اس بات کا ڈر ہے کہ جھوٹے الزامات لگانے، بہتان تراشی کرنے، فتنہ انگیزی پھیلانے حتیٰ کہ انتشار پھیلاکر دوسروں کی زندگیوں کے لیے خطرات پیدا کرنے پر اُنہیں پوچھا جا سکتا ہے یا سزا دی جا سکتی ہے کیوں کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے عدالتی اسٹے آرڈر ایک اہم ترین ہتھیار ہے جسے اب خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ فحاشی وعریانی پھیلانے اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے پر بھی اگر پیمرا کوئی ایکشن لیتی ہے تو اس کے خلاف بھی فوری اسٹے آرڈر دے دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم صاحب نےجو کہا وہ درست ہے۔ یعنی اگر پیمرا کو عدالتی اسٹے آرڈرز نے چلنے ہی نہیں دینا اور کسی چینل کے خلاف کوئی کارروائی ہونی ہی نہیں تو پھر عدالتوں میں پیمرا اپنا وقت اور پیسہ کیوں ضائع کرے۔ مجھے کوئی امید نہیں کہ میڈیا اپنی خود احتسابی کرے گا یا کوئی ایسا نظام بنائے گا جس کے نتیجہ میں ٹی وی چینلز شرانگیزی، بہتان تراشی، شرارت، فحاشی وعریانیت سے اپنے آپ کو باز رکھیں۔ مجھے یہ بھی امید نہیں کہ عدلیہ اسٹے آرڈرز کی وجہ سے پیمرا کی رٹ پر پڑنے والی کاری ضرب اور انصاف کے راستہ میں پیدا کی جانیں والی رکاوٹوں کا احساس کرتے ہوئے اسٹے آرڈرز کی اس بیماری سے اس قوم کی نجات دلائے گی۔ اس لیے وزیر اعظم صاحب کو چاہیے کہ بہتر ہو گا کہ پیمرا کے ادارہ کو ہی بند کر دیا جائے کیوں کہ عدالتی اسٹے آرڈرز نے تو ویسے ہی اسے بیکار کر کے رکھ دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے