وہ ایک تھپّڑ

کبھی آپ نے لفظوں کو بولتے سنا ہے؟آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ بعض لفظوں میں صرف ان کے معنی ہی نہیں، ان کی آواز بھی شامل ہوتی ہے۔ سچ پوچھئے تو کچھ لفظ بعد میں بنے ہوں گے، پہلے ان کی آواز بنی ہوگی۔ جس کی ایک بڑی مثال پڑھئے، بلکہ سنئے۔ وہ لفظ ہے ’تھپّڑ‘۔ایک طاقتور بازو ہو، توانا ہاتھ ہو جسے پنجہ بھی کہہ سکتے ہیں، ساتھ میں غضب کا اشتعال بھی ہو تو کیا کہنے۔پھر وہ ہوا میں زنّاٹے بھرتا ہوا چلے اور جاکر کسی مظلوم کےرخسار پر یوں پڑے کہ اس غریب کا سر گھوم جائے۔ اسے کہتے ہیں تھپّڑ۔ اگر تھپڑ مارنا جرم ہے تو یہ واحد جرم ہے جس میں مجرم اپنی انگلیوں کے نشان نہیں بلکہ مکمل ہاتھ کا پورا چھاپہ چھوڑتا ہے۔ یہی ہاتھ تالی بجانے کے کام بھی آتا ہے لیکن کہتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ تھپّڑ کی خوبی یہ ہے کہ اس کے لئے ایک ہاتھ کافی ہے اور اس کی آواز تالی سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔بس فرق اتنا ہے کہ تالی بجانے کے لئے ایک تنہا شخص بھی کام دکھا سکتا ہے، لیکن تھپّڑ کے عمل میں ایک سے زیادہ فریق ہونے ضروری ہیں۔ بات یہاں ختم نہیںہوجاتی بلکہ یہاں سےشروع ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تھپّڑ مارنے والا کون ہے اور کھانے والا کون؟وہ کس حیثیت کے مالک ہیں، سرکاری عہدے دار ہیں یا نہیں، وردی میں ہیں کہ نہیں، سادہ لباس میں ہیں تو کس منصب پر فائز ہیں۔اسلام آباد میں ہیں تو کس گریڈ کے ہیں۔ کسی کچہری عدالت کے آس پاس ہیں تو قانون کے رکھوالے تو نہیں۔پھر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ تھپّڑ کھانے والا جوابا ًوہ بھی ایک ہاتھ رسید کرتا ہے یا اپنی رہی سہی عزّت کو بچائے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ مارنے والے نے اگر کوٹ پہن رکھا ہے تو کس رنگ کا۔ کیا اس رنگ کے کوٹ پہن کر کچھ لوگ پہلے بھی عدالت میں حاضری لگا چکے ہیں؟یہ سب باتیں تفتیش کے عمل میں سامنے ہونی ضروری ہیں۔ تو کیا تھپّڑ مارنا جرم ہے؟ اگر ہے تو اس کی کوئی سزا بھی ہوگی۔ مگر ہم نے آج تک کسی سزا کا ذکر نہیں سنا۔ہاں اس بارے میں ہم اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ ہمارا پرانا مطالبہ ہے کہ جوتے مارنے کی سزا بحال کی جائے۔ اگر مجرم کو سزا دے کر دل میں ٹھنڈک پڑتی ہے تو جو لطف جوتے مارنے میں ہے، کسی دوسری سزا میں نہیں۔ یہ سزا تجویز پیش کرنے میں بھی ایک حکمت ہے۔ وہ یوں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ تھپڑ مارنے سے جسم پر کوئی زخم نہیں آتا اس لئے یہ کوئی بڑا جرم نہیں۔ یہ بات وہ لوگ کہتے ہیں جن پر یہ واردات کبھی گزری نہ ہو ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بھرپور تھپّڑ انسان کے اندر جو توڑ پھوڑ مچاتا ہے اسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ اس ایک وار میں عزّت نفس، خود داری اور انا پر جو گھاؤ لگتا ہے وہ کسی مرہم سے نہیں بھرتا۔
اب ایک اور بات جو سوچنے کی ہے۔وہ یہ کہ تھپّڑ مارنے کے لئے انسان کا رخسار ہی کیوں؟زنّاٹے دار ہاتھ گال ہی پر کیو ں پڑتا ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ انسان کو پیدائش ہی سے اکثر پیار اسی رخسار پر ملتا ہے۔ یہی چہرے کا وہ حسّاس علاقہ ہے جہاں پیار اور لمس یکجا ہوتے ہیں۔ محبت کے عملی اظہار کی خاطر چومنے کے لئے اسی رخسار پر بوسہ ثبت کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سوچئے کسی کے جذبات کو بری طرح مجروح کرنے کے خیا ل سے تھپّڑ رسید کرنے کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی ٹھکانہ ہو سکتا ہے؟تھپّڑ پہلے پہل جس کسی نے بھی ایجاد کیا ہوگا،بڑا ہی ظالم او ربلا کا بے رحم ہوگا۔

جس طرح سزا سخت اور نرم ہوسکتی ہے، اسی طرح جرم بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہی کام طمانچے سے بھی چل سکتا ہے۔ٹھیک ہے اس میں وہ تڑاخے کی آواز نہ ہوگی لیکن کھانے والا تھوڑی دیر سہی، اپنا گال سہلائے گا ضرور۔ دوسری بات یہ کہ لفظ تھپّڑ بہت وحشیانہ ہے جب کہ طمانچہ نسبتاً مہذب اور شائستہ ہے۔ اس کی ساخت اور املا میں بھی دھیما پن ہے اور چونکہ اس میں کوئی ہندی آواز نہیں، اس سے خیال ہوتا ہے کہ کہیں دور سے آیا ہوگا۔ اسی کو اپنا پن کہتے ہیں۔ مارنے کے اس عمل میں کچھ نفاست بھی شامل کرنا ہوتو تھپّڑ اور طمانچے سے بڑھ کر ’چپت‘ ہے۔ ہر چند کہ اس میں آواز اور ایذا کم ہے اوریہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے ہاتھ ہلکا رکھا،لیکن کسی معقول سبب کی بنا پر ماری جائے تو چپت بھی عرصہء دراز تک یاد رکھی جاسکتی ہے۔ ان تین چیزوں میں ایک بڑی خوبی اور بھی ہے۔ ان سے مارنے والے کاظرف پہچانا جاتا ہے۔ تھپّڑ مارنے والے کو آپ چاہیں تو بیہودہ کہہ لیں، طمانچہ مارنے والے کوقدرے مہذب کہیں اور چپت رسید کرنے والے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ شرافت کا پیکر ہوتے ہوتے رہ گیا۔ وہی کچھ دیر بعد گلے سے لگا لے تو سارے گِلے جاتے رہیں۔

ہم پھر لوٹتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ زبان اور لفظوں سے ایک مشغلہ نکالتے ہیں۔ لغت کھول کر کچھ ایسے لفظ ڈھونڈتے ہیں جو اپنی آوا ز بھی دیتے ہیں۔ ان میںتھپّڑ کی مثال ہوگئی۔ اب آگے چلیں:دھوم دھام۔ دھماکہ۔ دھکّا۔دھکم پیل۔دھاندلی۔ دھما چوکڑی۔ہاپھا دھاپی۔ بدھو۔ بھیڑ بھڑکّا۔بھدّا۔دھینگا مشتی۔ بھگدڑ۔ پھٹک۔ پھوٹ۔تہس نہس۔ جھڑپ۔ جھنجھنا۔ چھما چھم۔چھینک۔ایک اورلفظ جس میں دو چشمی ھ کے بغیربھی آواز محسوس ہوتی ہے، یہ مصرعہ دیکھئے:شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے۔اسی طرح سنّاٹا اور ہو کا عالم جیسے بولتے ہوئے لفظ ملے۔مگر سچ تو یہ ہے کہ لغت میں سب ملامگر تھپّڑ کی سند میں کوئی شعر نہ ملا۔ اچھی لغت میں اساتذہ کے اشعار سے معنی اورتلفظ کی سند مل جاتی ہے لیکن ہمارے ایک باوردی افسر کے رخسار پر پڑنے والے زنّاٹے دار ہاتھ کی سند نہ ملی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے