لاہور کے تعلیمی اداروں میں ملک بھر سے طلباء و طالبات مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ شہر جہاں تاریخ ادب اور فنون کا گڑھ ہے ۔ وہاں ہی تمام ملک کے نوجوانوں کے لیے پڑھائی کا ایک جنکشن بھی ہے۔
لاہور میرے لئے ایک اجنبی شہر تھا ۔ نہ زبان سے آگہی تھی اور نہ کلچر سے ۔ کالج کا پہلا سال ان ہی چیزوں کو سمجھنے میں لگ جاتا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ دوستیاں بھی پنپتی ہیں۔
کالج میں کراچی تا پشاور اور کوئٹہ سے گوادر ہر شہر کے طلباء تھے ۔ سارے ہی محنتی اور لگن والے تھے ۔ لیکن سب سے مختلف طالب علم ایک آدم بیزار طبیعت کا مالک تھا ۔جو لائبریری یا کالج کے کاریڈورز میں کسی نہ کسی کتاب کے ساتھ نظر آتا ۔
وہ دیکھنے میں لا ابالی سا نظر آتا ۔ جس کو نہ تو یہ فکر ہوتی کہ میرے بال بکھرے ہیں اور نہ ہی وہ کبھی کپڑوں کی سلوٹوں کی پرواہ کرتا ۔
بہرحال ایک مرتبہ اخبار سٹینڈ پر کھڑے کھڑے جاوید چوہدری کے کالم کے حوالے سے اختلافی گفتگو شروع ہوئی ۔ اور بیس سال گزرنے کے بعد بھی تمام اختلافات کے باوجود یہ گفتگو جاری ہے۔
اس لاابالی دوست کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں پر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کر کے خود کو ناقابل تسخیر ثابت کیا۔ جی بلکل ۔
چاغی کا وہ دوست مجھے کہتا تھا کہ وہاں کے دھماکے نے ملک کو عزت بھی دی اور ناقابل تسخیر بھی بنا دیا ۔لیکن آج بھی میرے لوگ ایک دو کلو آٹا سنبھال کر رکھتے ہیں کہ لامحالہ کوئی مہمان آ جائے تو اس کی روٹی کے لئے گھر میں آٹا موجود ہو ۔ (سترہ سال پہلے) ۔
میرا بلوچ دوست کلاس میں کم اور لاہور کی لائبریریوں میں زیادہ ملتا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ جناب جہاں محرومی ہو ۔ وہاں ادب تخلیق ہوتا ہے۔
وہ جہاں بھی جاتا ۔ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور لے کر آتا۔ مجھے پہلی دفعہ فیروز اینڈ سنز وہی لے کر گیا تھا۔
اس کی نسبت سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مزید طلباء سے شناسائی ہوئی۔ اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں ہے کہ میں نے ان سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے اور پھر ان کتابوں کے الفاظ کو اپنے اندر اتارنے والے کم طالب علم دیکھیں ہیں۔ جب بھی ان سے گفتگو کی جائے ۔ ان کی بات کتاب سے شروع ہو کر کتاب پر ختم ہوتی تھی۔
آج قائد اعظم یونیورسٹی کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کر مجھے اپنے بلوچ دوست یاد آ گئے۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ احتجاج کرنے والے یہ بلوچی طلباء بھی کتاب سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ ان کے ساتھ جو ہوا وہ افسوسناک ہے۔
کتاب والوں کو دلیل سے منایا جائے تو وہ آپ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں ۔