کیا عائشہ گلا لئی کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے؟ قانون کا لفظی اطلاق بھلے اس کا جواب اثبات میں دیتا ہو لیکن جورسپروڈنس کی رو شنی میں اس کاجواب نفی میں ہے۔کسی حتمی رائے پر پہنچنے سے پہلے دونوں پہلو دیکھ لیے جانے چاہییں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈیفیکشن کلاز کن صورتوں میں لاگو ہوتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق آٹھ چیزیں ایسی ہیں جہاں یہ شق لاگو ہوتی ہے۔
1۔کوئی رکن اپنی سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جائے( ضروری نہیں وہ کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے۔صرف مستعفی ہوجانا کافی ہے)۔
2۔کوئی رکن کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے( اس کے لیے استعفی ضروری نہیں ۔یہ کار خیر استعفی کے بغیر بھی ہو تو قانون نافذ ہو جائے گا)۔
3۔اسی طرح 6 مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی رکن اپنی پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برعکس ووٹ ڈالے یا ووٹنگ والے دن غیر حاضر رہے تو یہ شق اس پر لاگو ہو جائے گی۔یعنی وزیر اعظم یا وزیر اعلی کے انتخاب کے وقت، اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ کے موقع پر اور منی بل یا آئین میں ترمیم کے بل کے موقع پر اگر کوئی رکن پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برعکس ووٹ دیتا ہے یا اس کی واضح ہدایات کے برعکس ووٹ ڈالنے ہی نہیں آتا اور غیر حاضر رہتا ہے تو یہ قانون اس پر بھی لاگو ہو جائے گا۔
اب آئیے عائشہ گلالئی کے کیس کی جانب۔یہ کہنا کہ عائشہ گلالئی کو پارٹی ہدایات کا علم ہی نہ تھا ایک ایسا موقف ہے جسے لطائف کے باب میں تو لکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔پارلیمانی جماعت جب پارلیمان کے اندر کسی بھی مرحلے پر ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرے گی یا کوئی حکمت عملی وضع کرے گی تو ضروری نہیں وہ ایک کاغذ پر لکھ کر تمام اراکین کی خدمت میں پیش کرے گی کہ جناب والا یہ ہیں ہماری ہدایات ، وصول فرمائیے تا کہ سند رہے۔
اب وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کی واضح پالیسی تھی کہ شیخ رشید کو ووٹ دینا ہے۔ایک عام آدمی کو بھی علم تھا کہ ا س موقع پر تحریک انصاف کس کو ووٹ دے رہی ہے۔اخبارات میں کالم لکھے گئے اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی بھد اڑائی گئی کہ اس نے شیخ رشید کو اپنا امیدوار بنا دیا ۔ٹی وی چینلز عمران خان کا وہ کلپ بار بار دکھاتے رہے جس میں وہ اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ شیخ رشید کو اپنا چوکیدار بھی نہ رکھیں۔اس عالم میں اگر کوئی رکن اسمبلی کہے کہ اسے اس موقع پر پارٹی ہدایات کو علم نہیں تھا تو ایسے شخص کو پارلیمانی سیاست چھوڑ کر گھر چلے جانا چاہیے۔اب اگر تحریک انصاف سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ ہدایت نامہ دکھائے جو عائشہ گلالئی کو دیا گیا تو ظاہر ہے وہ تو ممکن نہیں ۔لیکن جس طرح یہ ممکن نہیں اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ عائشہ گلالئی کو اس پالیسی کا علم نہ ہو۔تحریک انصاف کا موقف ہے کہ جس میٹنگ میں عمران خان نے شیخ رشید کو اپنا امیدوار بنانے کا فیسلہ کیا اس میٹنگ میں عائشہ گلالئی موجود تھیں۔قانون بھلے تحریری ہدایت نامہ دکھائے جانے پر اصرار کرتا ہو جورسپروڈنس کی دنیا میں اس مطالبے کا کوئی بھرم نہیں ۔
عائشہ گلا لئی کا یہ موقف بھی کمزور ہے کہ وہ اس روز بیماری کی وجہ سے اسمبلی نہ آ سکیں۔سوال یہ ہے کہ کون سی بیماری؟اب اگر پولن الرجی سے اانے والی دو چھینکیں بیماری قرار دے کر ایسا عذر تراشا جائے تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہو گی۔پارلیمان میں ایک ایسی اہم ترین شخصیت کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہو رہی ہے جس میں پارٹی پالیسی سے انحراف پر آرٹیکل 63(A) لگتا ہواور آپ بیماری کا بہانہ کر کے ووٹنگ میں شریک نہ ہوں۔یہ سوال اس وقت زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب تحریک انصاف کا وکیل الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتا ہے کہ محترمہ اسی روز بلکہ اسی وقت جب سیشن جاری تھا ٹاک شوز میں شریک تھیں۔ بیمار تھیں تو ٹاک شوز میں کیسے گئیں؟ صحت مند تھیں تو ووٹ ڈالنے کیوں نہ آئیں؟اس غلط بیانی پر تو الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ ان کے خلاف آرٹیکل باسٹھ کی ذیلی دفعہ ’ ایف‘ کے تحت کارروائی کرتا۔قانون تو شاید ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ ہی کو حرف آخر مان لے لیکن جورسپروڈنس کے باب میں کچھ مزید سوالات اٹھتے ہیں۔
یہاں ایک اور سوال بہت اہم ہے۔ فرض کریں کوئی رکن اپنی جماعت سے استعفی بھی نہیں دیتا اور کسی دوسری جماعت میں بھی شامل نہیں ہوتا لیکن وہ ٹی وی پر بیٹھ کر اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ اپنی ایک سیاسی جماعت بنانے کا سوچ رہا ہے تو کیا اسے اپنی سیاسی جماعت کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے یا اسے جماعت سے الگ تصور کیا جائے گا؟اس صور ت میں کیا وہ سیاسی جماعت تماشا دیکھتی رہی کہ اس کی سیٹ پر قابض ایک رکن اس کی پالیسیوں کا کس طرح سے آملیٹ بنا رہا ہے؟قانون بھلے اس سوال کو اہمیت نہ دے لیکن جورسپروڈنس کی دنیا میں اس سوال کی اپنی ایک معنویت ہے۔
یہ فرق بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ عائشہ گلالئی اپنے ووٹ بنک کے زور پر اسمبلی میں نہیں پہنچیں ۔یعنی ایسا نہیں کہ پارٹی کے ووٹ کے ساتھ ساتھ ان کا بھی ووٹ تھا ۔وہ صرف اور صرف تحریک انصاف کے بل بوتے پر اسمبلی میں بیٹھی ہیں ایسے میں اگر پارٹی سے اتنی ہی متنافر ہیں ، پارٹی کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں تو کس بنیاد پر اس کی دی ہوئی قومی اسمبلی کی سیٹ پر قابض ہیں؟قانون بے شک براہ راست ووٹوں سے منتخب رکن اور مخصوص نشستوں پر آنے والے اراکین میں فرق نہ کرے لیکن جورسپروڈنش شاید اس فرق کو نظر انداز نہ کر سکے۔
البتہ چند اور سوال بھی اہم ہیں ۔اور انہیں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ معاملے کو اس کے مکمل تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔آرٹیکل 63(A) کی رو سے جس فیصلے کی خلاف ورزی پر ڈی فیکشن کلاز لگتی ہے وہ فیصلہ پارٹی قائد کا نہیں بلکہ پارلیمانی پارٹی کا ہوتا ہے۔آپ غور فرمائیں اس آرٹیکل میں دو اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں۔ایک سیاسی پارٹی اور ایک پارلیمانی پارٹی۔اب قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی ہیں۔پارلیمانی پارٹی نے شیخ رشید کو ووٹ دیا۔لیکن سوال یہ ہے عمران خان نے ووٹ کیوں نہیں دیا؟ پارلیمانی پارٹی کے جس فیصلے کی خلاف ورزی پر عائشہ گلالئی کے خلاف تحریک انصاف نے کارروائی کرنا چاہی اسی فیصلے کی خلاف ورزی تو خود عمران خان نے بھی کی۔اب یہ کون سا انصاف ہے کہ عائشہ گلالئی کے لیے الگ قانون ہے اور عمران خان کے لیے الگ؟ کیا پارلیمانی پارٹی نے عمران خان سے کہا تھا کہ آپ ووٹ نہ دیں؟ اگر نہیں کہا تو عمران خان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کوئی ایک شوکازنوٹس دکھا دیجیے۔ اور اگر عمران خان سے پارلیمانی پارٹی نے خود کہا کہ آپ ووٹ مت دیجیے اور غیر حاضر رہیے تو سوال یہ ہے کیا پارلیمانی تاریخ میں اس طرح کی لطیفے کی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟قانون اس نکتے سے بے نیازہو سکتا ہے ، جورسپروڈنس نہیں۔
یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ عائشہ کا اصل جرم شیخ رشید کو ووٹ نہ دینا ہے یا عمران خان کے مبینہ ایس ایم ایس پر جرات سے آواز بلند کرنا ہے۔ایک ایم این اے ایک زندہ وجود ہے یا سیاسی قائد کا تابع مہمل؟ میرا خیال ہے یہ اس معاملے کا اہم ترین پہلو ہے۔قانون بھلے اسے اہم ترین نہ سمجھے لیکن جورسپروڈنس کی روشنی میں یہی سوال اہم ترین سوال قرار پائے گا۔
بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں سچ لکیر کے دونوں اطراف موجود ہوتا ہے ۔یہ معاملہ بھی شاید ایسا ہی ہے۔ قانون نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اب معامہ سپریم کورٹ میں گیا تو شاید جورسپروڈنس بھی زیر بحث آ جائے۔