کرکٹ بحالی قومی کاز!

منگل3 مارچ 2009مقام تھا لبرٹی چوک لاہور اور وقت تھا صبح8 بج کر39 منٹ۔ گولیوں کی تڑ تڑاہٹ نے پہلے لاہور پھر پاکستان میں بھونچال برپا کردیا۔ لمحوں میں ہی اس خبر نے آگ پکڑ لی اور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ ہر کسی نے اس کو اپنی عینک سے دیکھا اور تبصرے جڑ دیئے۔ کسی نے سیکورٹی پلان میں نقص نکالا اور کسی نے عملی نااہلی کا قصور گردانا بہر حال اس واقعہ کے بعد پاکستان سے بین الاقوامی کرکٹ کی دیوی نے منہ موڑ لیا۔ آج اس واقعہ کا محض ذکر کرنا مقصود نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اس وقت مادروطن کیلئے قربانیاں دیں اور اس کے آنے والے وقت میں کرکٹ کی بحالی کیلئے سرتوڑ کوششیں کیں۔ پہلے اس واقعہ کو دوبارہ سے یاد کرلیا جائے تاکہ اس کی نازکی سے آگاہی ہوجائے۔ ہوا یوں تھا کہ سیکورٹی کانوائے کے ہمراہ سری لنکن ٹیم صبح قذافی اسٹیڈیم جارہی تھی کہ لبرٹی چوک پر گھات لگائے جدید ترین اسلحہ سے لیس12 حملہ آوروں نے انکی بس پر حملہ کردیا۔ اس حملہ کے نتیجے میں2 شہری اور پولیس کے چھ جوان شہید ہوگئے۔

انھی شہیدوں میں ایک شہید ہیڈ کانسٹیبل فیصل رشید بٹ بھی تھے جنھوں نے دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پولیس خفیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ فیصل بٹ کی سرکاری گاڑی کے ٹائر برسٹ ہوچکے تھے اور پچھلی گاڑی کے جوان شہید ہوچکے تھے فیصل بٹ کے پاس دو ہی راستے تھے کہ راہ فرار اختیار کرلیتا بھاگ کر پیٹھ پر گولی کھا لیتا یا پھر دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا فیصل نے آخری راستہ چنا جو بہادر جری جوانوں کا راستہ ہوتا ہے۔ فیصل بٹ نے دہشت گردوں کو تین منٹوں کیلئے انگیج کیا جس کی وجہ سے بس ڈرائیور کو ٹائم مل گیا اور وہ سری لنکن ٹیم کو وہاں سے لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔بعد ازاں فیصل نے 96گولیوں کو اپنے سینے کے آر پار کروا کر ثابت کیا کہ وطن سے محبت کے جینز ہماری سول فورسز کے جوانوں کے خون میں بدرجہ اتم اتنی ہی مقدار میں موجود ہیں جو کسی اور فورس کا خاصہ سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے بروقت ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور ادائیگی فرض کو ترجیح دی۔ انھوں نے وطن اور سری لنکا کی ٹیم کی حفاظت کے فرض کو ادا کرتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ آنسوئوں سے بھری ہوئی چمکتی آنکھوں کے ہمراہ رندھے ہوئے لہجہ میں انکی والدہ کا کہنا ہے کہ شہید کی ماں ہونے کا فخر ہے۔ قابل تحسین ہیں اس والدہ کا حوصلہ و عزم کہ آج بھی وہ ایک بیٹے کی قربانی دینے کے بعد بھی باقی بیٹوں کو بھی وطن پر قربان کرنے پر تیار ہیں۔ شہادت کے وقت فیصل کے والد عبد الرشید بٹ حیات تھے اور انھوں نے کمال بہادری سے اس شہادت کو قبول کرتے ہوئے جوان بیٹے کو لحد میں اتارا تھا۔

2015میں زمبابوے کی ٹیم جب پاکستان آئی تو کلمہ چوک پر پولیس نے ایک رکشہ کو روکا جس کے بعد خود کش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا جس کے نتیجہ میں سب انسپکٹر عبد المجید شہید ہوگیا اور نو زخمی ہوئے۔ عبدالمجید اور فیصل بٹ دونوں کو شہید کا درجہ دیا گیا اور فیصل بٹ کو بہادری کا گیلنٹری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ جوان بیٹوں کی شہادت پاکستانیوں کیلئے فخر کا مقام ہے اور یہی پاکستانیوں کے لازوال عزم کی داستان ہے۔ ایسے ہی کئی وشہدا، غازیوں کی جراتوں اور دیگر سرکاری اذہان کی انتھک کوششوں کی بدولت 29 اکتوبر 2017 کا سورج پاکستانی کرکٹ اور پاکستان کیلئے خوشی کا وہ دن لیکر آیا جسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ قبل ازیں زمبابوے کی ٹیم اور ورلڈ الیون کی ٹیموں کی آمد کے موقع پر خصوصی طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ریلو کٹے جیسے الفاظ میں تنقید کرکے کرکٹ کے مداحوں کا دل توڑ دیا تھا۔ عمران خان نے تنقید کے پتھر برساتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ فوج کی کڑی نگرانی اور لاہور کو بند کر کے عوام کو تنگ کرکے کیا حاصل کیا جارہا ہے۔

تاہم ان نام نہاد سیاست دانوں کی خرافات کے باوجود پی سی بی، سیاسی اور عسکری قیادت کی پر عزم عملی کوششوں کے بعد 8 سال 240 دنوں بعد آخر کار اسی ملک سری لنکا کی ٹیم اسی شہر لاہور میں آگئی جہاں انکی ٹیم پر خوفناک حملہ ہوا تھا۔ اس پورے عمل میں سری لنکا کے کرکٹ بورڈ کے ٹھوس کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے جس نے خطے کے تمام تر ماحول کے تناظر میں جری فیصلہ کیا۔ اگرچہ سیکورٹی کے پیش نظر شہریوں کو ٹریفک کی شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم ہم سب کو یہ جان اور سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملکی وقار کی بحالی کیلئے نہ صرف انتظامی سطح پر کوششیں کریں بلکہ عوامی سطح پر بھی اپنی اپنی ذمہ داری مکمل اعتماد، خوش دلی اور انتہائی عزم سے ادا کریں اور دوسروں میں بھی یہ احساس پیدا کریں۔ سیاسی مخالفین کیلئے عرض ہے کہ وہ اس قومی کاز کے ضمن میں منفی گفتگو نہ کریں۔ پاکستان پائندہ باد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے