بلیک فرائیڈے اور میرے مفتیان اسلام ۔۔!!!

رواں ہفتے لکھ تو پاکستان کے طبیبوں پر تھا مگر لاہور سے میرے پیارے کلاس فیلو اور دیرینہ دوست ساجد حسین کھوکھر نے تحریر بھیجی انکی اپنی ہے یا انہوں نے مجھے فارورڈ کی مگر اچھی باتیں ہیں۔ چونکہ میں معاشرتی مسائل پر لکھنے کی جسارت کرتا ہوں اور اس تحریر کو کچھ قطع و بریدکے بعد پیش خدمت کر رہا ہوں۔اس قطع میں ہمارے معاشرے کے ان احباب کیلئے بہت سارے سوالات ہیں جو ماننے والے تو آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نام لینے والے اسلام کے ہیں مگر وہ اپنے معاشرے میں مذہب اور مذہبی فرائض کے نام پر یا تولوگوں کا استحصال کررہے ہیں یا پھر وہ ایسے استحصالی گروہوں کے خلاف کھبی نہیں بولتے جو معاشرے کے پسے ہوئے اور غریب طبقات کو خوشیوں سے محروم کرتے ہیں۔۔۔

”بلیک فرائیڈے نامی اصطلاح پر کچھ مسلمان دوستوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ انکا درست موقف ہے کہ چونکہ جمعۃ المبارک ہمارامسلمانوں کا مقدس مذہبی دن ہے اسلئے اسے بلیک فرائیڈے نا کہا جاۓ ، آنے والے ایک دو روز میں اس ” بلیک فرائیڈے ” کو لیکر مزید شدت آنے کا بھی امکان ہے۔۔ کچھ دوست بلیک فرائیڈے کے مدمقابل وائٹ فرائیڈے ، برائٹ فرائیڈے یا بلیسڈ فرائیڈے کی اصطلاح استعمال کرنے لگے ہیں۔چلیں سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ” بلیک فرائیڈے "ہے کیا ؟اور یہ ٹرم استعمال کیوں کی جاتی ہے؟ بلیک فرائیڈے دراصل مسیحی تہوار کرسمس کی شاپنگ کے آغاز کا نام ہے، امریکہ و مغربی ممالک میں اس کرسمس سے پہلے جمعہ کے روز سے تمام دکاندار اور کاروباری حضرات اپنے شاپنگ مالز میں غیر معمولی ڈسکاؤنٹ پر سیل لگا دیتے ہیں وہ آئٹم جو عام دنوں میں 100 ڈالر کا ہوتا ہے تو اس شاپنگ فیسٹیول کے دوران اس کی قیمت 60 سے 70 ڈالر کردی جاتی ہے۔لگ بھگ ایسا یا اس سے بہتر ڈسکاؤنٹ آفر بھی مل جاتا ہے اور اس سب کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ ہر خاص و عام کرسمس کی خوشیاں اپنی فیملی کا ساتھ منا سکے، کاروباری حضرات اپنا منافع بہت کم رکھتے ہیں پر اتنی بڑی تعداد میں مال فروخت ہوتا ہے کہ انکے اگلے پچھلے سارے نقصانات پورے ہوجاتے ہیں ، میرے بہت سارے دوست اور اکثریت میں مغربی اور ایشیائی باشندے اس دوران پورے سال کی اکٹھی شاپنگ کرلیتے ہیں ، لہٰذا شاپنگ سینٹرز اور سڑکوں پر لگنے والی لمبی قطاروں کو دیکھتے ہوئے اس دن کو ” بلیک فرائیڈے” یعنی "افراہ تفریح ” والا دن کہا جاتا ہے۔اب آتے ہیں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی جانب جناب وہ اسے بلیک فرائیڈے کہیں یا ریڈ فرائیڈے ، آپکا اس سے کیا لینا دینا؟

غیرت اور شرم کی بات یہ نہیں کہ وہ دن کوبلیک یا وائٹ کہ کر اپنے ہم وطنوں کو سہولتیں دیں ، غیرت اور شرم کی بات یہ ہے کہ کوئی دِنوں کو مقدس بتا کر لوٹ لے۔چلیں آئیں ذرا دیکھتے ہیں کے ہم کیا کرتے ہیں۔ ہمارا رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آتا ہے جسے کسی انسان نے نہیں بلکہ الله پاک نے مقدس اور نعمتوں والا کہا ہے پر ہم نے اس مقدس ماہ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ہر وہ نعمت جو رمضان کے ماہ میں استعمال ہوتی ہے اسکی قیمت کئی گنا زائد تک بڑھا دی جاتی ہے۔پھر آتا ہے خوشیوں کا تہوار عید وہ کپڑے جو عام دنوں میں 500 کاسوٹ ملتا ہے عید کے تہوار پر وہ آپکو پنڈی سو سے2000 کا ملے گا۔پھر آتی ہے بڑی عید یا قربانی والی عید وہ جانور جو قربانی سے قبل عام دنوں میں 30 سے40 ہزار کا ملتا ہے ، اس تہوار پر اسکی قیمت 70 ہزار سے 1 لاکھ تک کردی جاتی ہے۔پھر آیا محرم اس میں حلیم کیلئے ذرا خالی دیگ کی قیمت ہی معلوم کرلیں تو ہوش ٹھکانے آجائے۔۔

پھر آتا ہے ربیع الاول ذرا آرائیشی لائٹز اور سامان سجاوٹ کا ریٹ معلوم کرلیں لگ پتا جائے گاکہ ہم کتنے عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں۔حج کا فریضہ۔۔یہ وہ فریضہ ہے جسکے لئے ہمارے بزرگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ، جس کے نظارے ٹی وی پر دیکھتے انکی آنکھوں سے آنسو نہیں روکتے پر وہ اس پاک جگہ کی زیارت نہیں کر پاتے کہ انکے پاس 3 سے4 لاکھ روپے نہیں ہوتے۔ ہمسایہ ملک بھارت مسلمانوں کو اس فریضہ کیلئے گذشتہ سال تک سبسڈی دیتا تھا۔۔ہم ہر سال پرائیویٹ تو چھوڑیں سرکاری اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔۔
کہاں تک گِنو گے اور کہاں تک گنواؤں

یہاں تمام مسلک اور فرقوں کا ذکر کیا ذرا بتائیں کون کس کو سہولت دے رہا ؟ تمام مسلمان تو چلو چھوڑ ہی دیں ہم اپنے مسلک اور فرقہ والوں کو الٹی چھری سے ذبح کرنے سے بھی باز نہیں آتے ہم اور انگلیاں اٹھا اور غیرت کھا رہے ہیں کہ ” فرائیڈے کو بلیک ” کیوں کہتے ہیں ؟ ارے جناب ذرا گریباں میں جھانکیں ہم نے تو اپنے مذہبی فریضوں سے لیکر تہواروں تک کو غریبوں کے لئے ایک” بلیک ڈریم” بنا دیا ہے۔جہاں بچے خوش ہوتے ہیں کہ عید آرہی ہے وہیں غریب والدین کا سانس سوکھا ہوتا ہے کہ عید پر بچوں کو کپڑے کیسے خرید کر دیں گے؟خدا ہم سے یہ تو شاید نا پوچھے کہ جمعہ کو بلیک کہا گیا تو تم نے کیا کردیا ؟ پر خدا یہ ضرور پوچھے گا کہ جن مہینوں اور تہواروں کو میں نے تم پر حلال کیا وہ تم نے غریب کے لئے حرام کیوں کردیۓ”

اس بارگزرے رمضان المبارک کے دوران میں نے کوشش کی کہ کم سے کم فروٹ خریدا جائے اور صرف کھجوروں اور پانی سے روزے افطار کئےجائیں،جب بھی کسی فروٹ شاپ یا ریڑھی والے سے مخاطب ہوتا تو اس کو بولتا کہ یار میں تو تنخواہ دار ہوں اور اللہ کے کرم سے کچھ نہ کچھ خرید ہی سکتا ہوں مگراللہ کریم کا مہینہ ہے اور آپ نے اس ماہ مقدس میں غریبوں سے وہ اشیاء بھی چھین لیں جو وہ عام دنوں میں وہ کھا ہی لیتا تھا،تو دکاندار بولتا کہ میرا تو قصور ہی نہیں۔۔۔پیچھے سے مہنگا ملتا ہے۔۔تاہم میرا موقف ہے کہ اس دوران مہنگائی میں سب اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔پیچھے سے اگر دس روپے مہنگا ملتا ہے تو ریڑھی بان بھی گالی توصدر وزیر اعظم کو دیتا ہے مگر وہ اس مہنگائی کے چکر میں اپنے منافع میں بھی پہلے سے دس روپے خود اضافہ کر لیتا ہے۔ اللہ مجھے معاف فرما دے ہمارے مفتیان کرام چھوٹی سی جنبش اور غلطی پر لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں جبکہ زبان کی ذرہ سی جنبش پر کفر کے فتوے لگ جاتے ہیں۔۔مگر آج یہودوانصار بلیک فرائیڈے سمیت جو اقدامات اپنے لوگوں کو سہولیات بہم پہنچا نے کیلئے کر رہے ہیں ہم جانتےہیں کہ وہ اسلامی نہیں ہیں مگرآنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ تو دشمن کی خوبی کی بھی تعریف فرماتے۔آج ہم بے شک بلیک فرائیڈے کو وائٹ کرکے منائیں۔۔۔ مگر چلیں آج ہم اپنے بڑے چھوٹے تاجروں،کاروباری حضرات،دکانداروں،ریڑھی بانوں اور تمام افراد معاشرہ کی تربیت کریں کی بھائیو۔۔۔!! ان خاص دنوں میں 4 آئٹمز سے 100روپے کمانے کی بجائے 400 آئٹمز سے 1000 روپے کما لو۔۔۔!! تیرا بھی بھلا اور غریب بھی خوش۔۔۔!!! اللہ ہماری اصلاح فرما کر ایک دوسرے کے کام آنے اور معاشرے میں اچھی اقدار کے فروغ کی توفیق عطا فرمائے تاکہ جس طرح ہم دوسرے مذاہب کی مثالیں دیتے ہیں دنیا بھی ہماری مثال دے،آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے