سبوخ سید
اسلام آباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عمر کا والد فوت ہو چکاہے ۔ والد کی وفات اور شام میں جنگ کی وجہ سے عمرکے ننھے کندھوں پر اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ آن پڑا تھا ۔ تین چھوٹے بھائی اور ایک بیمار ماں
عمر اسکول چھوڑ کر ایک کاروبار میں لگ گیا ۔ وہ روزانہ سڑک کے کنارے ٹافیاں فروخت کرتا اور خاندان کی بھوک مٹانے کا بندوبست کرتا ۔
دمشق کے مشرقی گوٹھ پر کل بشار الاسد نے بمباری کرائی جس کے نتیجے میں ایک سو افراد مارے گئے ۔ لاشوں کی شناخت کا مرحلہ آیا تو ایک لاش ننھے عمر کی بھی تھی ۔
عمر کی ماں کل شام العربیہ ٹی وی پر بتا رہی تھی کہ عمر کی موت نے اس کے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہیں ۔ مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ میں بیوہ ہوں اور عمر کے تین بھائی یتیم ہو چکے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے مطابق شام میں اسدی فوج کیمائی مواد والے ہتھیار استعمال کر رہی ہے تاہم شام میں ہونے والے اس ظلم پر جہاں عالمی میڈیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے وہیں عالمی اداروں
انسانوں حقوق کی تنظمیوں اور بالخصوص مسلم ممالک میں بھی بے حسی پائی جاتی ہے ۔
شام کا مسئلہ ہو یا یمن کا
مسئلہ کشمیر کا ہو یا افغانستان کا
یا فلسطین میں قتل ہوتے بچوں کا
ہم تو کہا کر تے تھے کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔
ماں کسی ایک کی ماں نہیں ہوتی ، ماں تو سب کی ماں ہوتی ہے
بہن تو سب کی ہوتی چاہے آپ کے گھر میں ہے ، یا میرے گھر میں
بہن تو بہن ہوتی ہے
بیٹاں تو ہوتی ہی سب کی ہیں ۔
لیکن ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ان معصوم بچوں کا قتل دیکھ رہے ہیں ۔ کچھ بچے یہ خون دیکھ کر بڑے ہو رہے ہیں ۔
انہوں نے کھلونے نہیں دیکھے ، بمباری کرتے ہوئے جہاز دیکھے ہیں
انہوں نے فٹ بال نہیں دیکھا لیکن انسانی سروں کو فٹ بال بنتا دیکھتا ہے
انہوں نے گاڑیاں نہیں ، ایمبولینسسز دیکھی ہیں ۔
انہوں نے استاد نہیں بلکہ انسانی جسموں کو چیڑ پھاڑ کر آپریشن کرتے ڈاکٹر دیکھے ہیں
انہوں نے اپنی ماؤں کو روتا دیکھا ہے
اپنی بہنوں کو لٹتا دیکھا ہے
ان سے کل اس بات کی امید نہ رکھنا کہ ان میں انسانیت ہوگی ، تم نے انہیں انسانوں والی زندگی گذارنے کا موقع ہی کب دیا ہے ۔
انگاروں پر چلنے والے دوسروں پر گلاپ کی پتیاں نچھاور نہیں کر تے ۔
سنو
باز آجاؤ
خدا کے لیے
ان بچوں کو بچاؤ
اگر ہم نے اس ظلم کو روکنے کے لیے آواز بلند نہ کی تو یاد رکھنا
کل ہمارے گھروں میں اس شام نے شام غریباں برپا کر دینی ہے