کہیں آپ ناراض تو نہیں ؟

ایک اور سال گزر گیا ایک اور سال شروع ہو گیا۔ جیسے جیسے وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے میرے اندر یہ احساس گہرا ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔ہم بے معنی بحثوں اور تنازعات میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں اور سزا کے طور پر وقت ہمیں برباد کر رہا ہے ۔2017ء شروع ہوا تو میں نے کچھ ایسے مسائل اور موضوعات پرتوجہ دینے کی ٹھانی جن کا تعلق براہ راست عام آدمی کی زندگی سے ہے کیونکہ میں اس احساس جرم کاشکار تھا کہ ہم نے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو صرف سیاسی بیان بازیوں اور لڑائیوں کیلئے وقف کر رکھا ہے ۔ہم صحت اور تعلیم جیسے اہم معاملات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے لیکن افسوس کہ گزرے سال کے دوران میں اپنے آپ سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔جب بھی ملاوٹ شدہ دودھ، مضر صحت پانی، طبقاتی نظام تعلیم کی خرابیوں اور نصاب کی تبدیلی کی ضرورت جیسے اہم موضوعات پر توجہ کی تو پانامہ کیس، دھرنوں اور سیاسی بڑھک بازیوں نے میری اس توجہ کو ایمرجنسی بریکیں لگا دیں۔وہ صحافی جن کا اوڑھنا بچھونا صرف صحافت ہو وہ اپنی صحافت کو سیاسی گروہ بندیوں سے بچا کر عام آدمی کے مسائل کو اجاگر کرنا اولین ترجیح سمجھتے ہیں لیکن تیزی سےگزرتے وقت نے ہماری صحافی اقدار کو بھی بدل دیا ہے ۔کچھ سال پہلے تک بعض صحافی کھل کر ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کیا کرتے تھے اور جب یہ جماعت اقتدار میں آتی تو وہ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اقتدار میں اپنا حصہ بھی وصول کرلیتے تھے۔اب صورتحال یہ ہے کہ صحافت میں کوئی بڑا منصب یا ذمہ داری حاصل کرنے کیلئے کسی مخصوص سیاسی جماعت کے نکتہ نظر کا ترجمان یا کسی طاقتور گروہ کی حمایت حاصل کرنا لازمی ہوگیا ہے ۔نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو معلوم ہے لیکن 2017ء کے آخری ہفتے میں پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں کے سفر کے دوران مجھے عام لوگوں اور خاص لوگوں نے بہت سے ایسے سوالات کئے جن سے یہ تاثر ملا کہ بعض صحافی اور ٹی وی اینکر اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بجائے اپنے سیاسی نکتہ نظر کی وجہ سے پسند یا ناپسند کئے جاتے ہیں ۔جس صحافی کی طرف سے کسی خاص سیاسی جماعت کی حمایت نہ کی جائے اسے کوئی بہت پراسرار معمہ یا خطرناک شخص سمجھا جاتا ہے ۔پچھلے ہفتے سعید غنی، سینیٹر عاجز دھامرا اور حمیرا علوانی نے مجھے بار بار بلاول بھٹو زرداری کے پیغامات دیئے کہ آپ کو 27دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی دسویں برسی کے موقع پر جلسے کو دیکھنے ضرور آنا چاہئے ۔پھر اس اصرار میں آصف زرداری صاحب کی تاکید بھی شامل ہو گئی لہٰذا میں مصطفیٰ نواز کھوکھر، ندیم افضل چن اور فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ 26دسمبر کی شام سکھر پہنچ گیا۔سکھر میں شیری رحمان بھی مل گئیں اور ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے گڑھی خدا بخش روانہ ہو گئے ۔سکھر سے لاڑکانہ کی طرف جانے والی سڑک کی حالت میں پہلے کی نسبت بہتری خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔گڑھی خدا بخش میں محترمہ بےنظیر بھٹو، ان کے والد، والدہ اور دونوں بھائیوں کی قبروں پر فاتحہ کے بعد شیری رحمان کو ٹی وی کیمروں نے گھیر لیا اور میں مزار سے باہر آ گیا۔

بھٹو خاندان کے مزار کے باہر مجھے کچھ سندھی نوجوانوں نے سلفیاں بنوانے کے بہانے روک لیا اور پھر ایک نوجوان نے بڑی تہذیب کے ساتھ اجازت مانگ کر پوچھا کہ ’’سائیں ایک بات تو بتائو، آج کل آپ نواز شریف پر بھی تنقید کرتے ہو، عمران خان کو بھی نہیں چھوڑتے اور پیپلز پارٹی کو بھی امیروں کی جماعت کہتے ہو، آپ پرویز مشرف کی بھی سخت مخالفت کرتے ہو، مولانا فضل الرحمان سے بھی خوش نہیں ہو، ہم دوست آپس میں بہت بحث کرتے ہیں کہ آپ کس کے ساتھ ہیں، آج آپ خود بتا دیں آپ کس کے ساتھ ہیں ؟‘‘یہ سوال سن کر میں مسکرادیا تو ایک اور نوجوان بولا میں بتاتا ہوں۔اس نوجوان نے کہا کہ سائیں کچھ عرصہ سے مایوس ہے لیکن جمہوریت کےساتھ کھڑا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ اس ملک میں ڈکٹیٹر کا بھی احتساب ہو، سائیں کسی کے ساتھ نہیں ہے صرف آئین کے ساتھ ہے ۔یہ سن کر میں نے نوجوان کو گلے لگا لیا اور کہا کہ تم نے ٹھیک کہا میں بڑی سیاسی جماعتوں سے خاصا مایوس ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ جمہوری نظام جاری رہا اور دو تین انتخابات وقت پر ہو گئے تو معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہم نوڈیروپہنچے جہاں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک عشائیہ تھا۔ اس عشائیے میں بلاول بھٹو زرداری کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے آئے ہوئے نامی گرامی ٹی وی اینکرز کے طوفانی سوالات کے بڑے مطمئن لہجے میں جوابات دے رہےتھے ۔اس عشائیے کے دوران بلاول صاحب نے تین مرتبہ مجھے پوچھا کہ آپ ہم سے ناراض تو نہیں ؟مجھے اس سوال پر کافی حیرت ہوئی ۔سندھ حکومت کی طرف سے ٹیچرز اور گنے کے کاشت کاروں پر تشدد کی وہ خودمذمت کر چکے تھے لیکن میری مذمت کو شاید پسند نہ کیا گیا۔بہرحال اگلے دن 27دسمبر کو بلاول صاحب نے بہت بڑا جلسہ کیا اور بڑی بھرپور تقریر کی ۔میں ان کی تقریر کے آخری لمحوں میں جلسہ گاہ کے عقب میں ایک کچے راستے سے نکلا تو انسانوں کا سمندر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ یہ و ہ ہزاروں لوگ تھے جو جلسہ گاہ تک نہ پہنچ سکےتھے کیونکہ سکھر سے لاڑکانہ آنے والی سڑک دوپہر دوبجے بند کر دی گئی تھی یہ لوگ کچے راستوں سے پیدل آ رہے تھے ان کا اصل مقصد تقریریں سننا نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی کی قبر پر فاتحہ خوانی تھا ۔ یہ جلسہ کم اور عرس زیادہ تھا۔شدید سردی میں بھٹو کے پرستار بسوں اور ویگنوں کے پیچھے لٹکے ہوئے تھے۔میں نے اس سے پہلے اتنا بڑا ہجوم یہاں نہیں دیکھا۔جتنا بڑا ہجوم اتنی زیادہ بدانتظامی اور اس بدانتظامی کے ذکر پر میں بلاول صاحب سے معذرت خواہ ہوں۔ان کا جلسہ بہت بڑا تھا لیکن اس کا کریڈٹ ان کی پارٹی کو نہیں بھٹو کے پرستاروں کی ہمت کو جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نےسیکورٹی کے نام پر جگہ جگہ ناکے لگائے اور پوری کوشش کی کہ لوگ جلسے میں نہ پہنچیں لیکن بھٹو کے پرستار اپنی ہی پارٹی کے ناکوں کو شکست دیکر مزار تک پہنچ گئے۔کمال پارٹی کا نہیں کمال تو مزار والوں کا ہے ۔

27دسمبر کی رات میں اسلام آباد پہنچا۔28دسمبر کی دوپہر تحریک انصاف کے کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی پوچھنے لگے آپ قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کی حمایت کیوں نہیں کر رہے ؟میں نے کہا کہ یہ آپ کا موقف ہے میرا موقف مختلف ہے تو ایک محترم دوست نے کہا ’’آپ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کسی مجبوری کی وجہ سے تو نہیں کر رہے ؟‘‘یہ سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی اور مجھے وہ سندھی نوجوان یاد آ گیا جو پوچھ رہا تھا آپ کس کے ساتھ ہو؟۔29دسمبر کو ایک شادی میں شرکت کیلئے لاہور پہنچا تو پورا لاہور ایک نئے این آر او کی آوازوں سے گونج رہا تھا ۔ آصف زرداری صاحب بھی لاہور میں تھے اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ان سے ٹیلی فون پر رابطے کی کوشش کر رہے تھے ۔ لیکن زرداری صاحب ا سپیکر سے بات کرنے پر تیار نہ تھے ۔پھر انہیں کہا گیا کہ کسی قابل اعتماد آدمی کا نام بتا دیں اس کے ذریعے بات کر لیتے ہیں لیکن زرداری صاحب نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ کرنے سے انکار کر دیا ۔30دسمبر کو لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری نے آل پارٹیز کانفرنس بلا رکھی تھی جس میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو اکٹھا کر دیا گیا۔ اے پی سی کے دوران مسلم لیگ (ن) کے ایک صوبائی وزیر نے پوچھا نواز شریف کو این آر او مل رہا ہے یا نہیں ؟میرا جواب نفی میں تھا۔میں نے کہا مسلم لیگ (ن) کے پاس پانچ حکومتیں ہیں، آپ کی پانچ میں سے ایک حکومت خطرے میں ہے، جو کچھ بھی ہو گا آئین کے اندر ہو گا آپ آئینی خطرے سے بچیں۔وزیر صاحب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور مظلومانہ لہجے میں پوچھا ’’آپ ہم سے ناراض کیوں ہیں ؟‘‘.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے