مستقبل مریم نواز کا ہے

مجھے سیاست میں آنے کا شوق نہیں تھا ، دو بار وزیراعلیٰ اور تین بار وزیراعظم میرے والد رہ چکے ہیں، سب کچھ دیکھ لیا تھا زندگی میں، یہی کچھ ہوتا ہے . میں تو ایک گھریلو خاتون ہوں، میں جب پہلی بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی اور باہر آ کے میڈیا سے ٹاک کی اس سے پہلے مجھے دھمکیاں دی گئیں کہ تم نے تقریر نہیں کرنی، میڈیا سے گفتگو نہیں کرنی، مارگریٹ تھیچر نے نعرہ لگایا تھا "اُٹھو اور آگے بڑھو برطانیہ ” بیٹھ کر انتظار مت کرو برطانیہ! بس یہی میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا، میں نے فیصلہ کر لیا کہ "ووٹ کو عزت دو اور سول سپر میسی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں بھی کاٹنی ہیں.

یہ الفاظ تھے مریم نواز کے جو انہوں نے اپریل کے وسط میں کمرہ عدالت میں اس وقت کہے جب وہ ایون فلیڈ ریفرنس میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے جا رہی تھی.

میں نے انھیں روسٹروم کے سامنے تین گھنٹے ننگے پاؤں کھڑے ہو کر بیان ریکارڈ کرواتے دیکھا جب وہ بیان ریکارڈ کروا رہی تھیں تو وہاں بھی وہ سول سپر میسی کی بات کر رہی تھیں ، وہ کہہ رہی تھیں کہ اس ملک میں ووٹ کی طاقت سے آنے والے نمائندگان کو کبھی پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جاتا ہے اور کبھی گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور کبھی جلاوطن کر دیا جاتا ہے، وہ جج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی تھیں ، کہہ رہی تھی عزت مآب جج صاحب! ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ ٹھیک ہے جمہوریت میں غلطیاں ہوتی ہیں اور ہم ان غلطیوں سے سبق حاصل کر رہے ہیں مگر ایسا ممکن نہیں کسی بھی جمہوری ملک میں منتخب وزیراعظم کے خلاف واٹس ایپ گروپ پر سازشیں تیار کی جائیں اور انھیں اقتدار سے محروم کر دیا جائے ، مائی لارڈ! اقتدار آنی جانی چیز ہے ، ہم بات عوام کے مینڈیٹ کی کر رہے ہیں، اس کی توہین نہیں ہونی چاہیے .

اعتماد کے ساتھ بیان ریکارڈ کروانے کے بعد وہ اپنی نشست پر بیٹھیں تو ساتھ بیٹھے میاں نواز شریف نے انھیں تھپکی دی، جب وہ بیان ریکارڈ کروانے کے لیے روسٹرم کی طرف جا رہی تھیں تو مشرقی روایات کے پاسدار باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے، مریم نواز نے بہادر بیٹی کا حق ادا کیا اپنے باپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑی ہو گئی ، لاہور سے سپیدہ سحر کے وقت چلنا اور ٹھیک نو بجے کمرہ عدالت میں پہنچنا، پیشی بھگت کے واپس لاہور مشقت کا کام ہے

بیمار ماں کی تیمارداری کے لیے لندن نہ جانے دینا، عدالت میں حاضری کے لیے دباؤ ڈالنا، یہ کہنا کہ محترمہ کلثوم نواز مکمل صحت یاب ہیں یہ سب بہانہ بازی ہے ، عدالتوں کا سامنا کرنے سے بھاگ رہے ہیں، ان کی زبان بندی کی گئی ، میڈیا سے بات چیت کرنے پر پابندی لگا دی گئی، مجھے اچھی طرح یاد ہے جس دن ایون فلیڈ کا فیصلہ آنا تھا میں علی الصبح اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں عدالت پہنچ گیا تو وہاں شریف خاندان کے وکلاء عدالت سے استدعا کر رہے تھے کہ فیصلہ کچھ دن کے لیے موخر کر دیں کیونکہ محترمہ کلثوم نواز شدید علیل ہیں مگر جج بضد تھا کہ فیصلہ آج سنایا جائے گا فیصلہ پڑھا گیا لکھا کہیں اور گیا تھا

مجھے اہم ذرائع نے بتایا تھا کہ دباؤ کہاں سے ہے ، مگر میرا وہ ذریعہ ساتھ مجھے استدعا کر رہا تھا کہ میری نوکری کا مسئلہ ہے، کہیں میرا ذکر نہ کرنا میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.

فیصلہ آ گیا پھر کہا گیا کہ باپ بیٹی لندن سے واپس نہیں آئیں گے ، باقی ماندہ زندگی لندن میں گزاریں گے مگر وہ بیمار ماں کو لندن چھوڑ کے واپس آنے کا فیصلہ کر چکی تھی کہ ووٹ کی عزت کی خاطر طویل جنگ لڑنی ہے، قید و بند کی صعوبتیں کاٹنی ہیں مگر جھکنا اور پیچھے نہیں ہٹنا

اپنے باپ کے ساتھ جب وہ عدالت آتیں تو لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد ان کے گرد جمع ہو جاتی وہ ان کی حوصلہ افزائی کرتیں، انھیں ڈٹ جانے کا مشورہ دیتیں ، کارکن بھی ان کی آواز پر لبیک کہتے، چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجا کے رکھنے والی یہ بھولی بھالی خاتون جو مکمل گھریلو خاتون تھی غیر جمہوری ہتکھنڈوں نے اسے مجبور کیا کہ وہ سیاست میں قدم رکھے، میاں نواز شریف نے بھی اپنی سیاسی لیگیسی غیر محسوس انداز میں اسے منتقل کرنا شروع کی اور اس کی تربیت جاری رکھی ، ہونہار بیٹی نے بھی باپ کو مایوس نہیں کیا اور بہادر بن کے باپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی ، ہر مشکل مرحلے میں باپ کی ہمت بندھاتی اور انھیں حق پر ڈٹ جانے کا مشورہ دیتی رہی.

میں نے دیکھا کہ مریم نواز کے اندر قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت ہے ، لیگی کارکنان اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں ، وہ ظلم جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی خاتون ہیں ، مستقبل مریم نواز کا ہے اور وہ لیڈر بن کر ابھرے گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے