10 ہزار کا چالان

کیا یہ تجویز درست ہے کہ موٹر سائکل سواروں کا چالان 2 ہزار تک اور کار اور جیپ کا چالان 10 ہزار تک کر دیا جائے ؟ آپ کی طرح میرے نزدیک بھی اس سوال کا جواب نفی میں ہے لیکن میں معافی چاہتا ہوں میرے موقف کی وجوہات شاید وہ نہ ہوں جو آپ کے ذہن میں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کار اور جیپ کا چالان 10 ہزار ہے تو موٹر سائیکل کا چالان 2 ہزار کیوں ؟ 10 ہزار سے کچھ زیادہ نہیں تو کم از کم اسے10 ہزار تو ہونا ہی چاہیے تھا ۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ موٹر سائیکل کا چالان گاڑی کے چالان سے 5 گنا کم کیوں تجویز کیا ہے ۔ گویا میرا اختلاف اس بات پر نہیں کہ کار اور جیپ کا چالان 10 ہزار تک کیوں مقرر کیا جا رہا ہے بلکہ میرا اعتراض یہ ہے کہ موٹر سائیکل سواروں سے 5 گنا رعایت کیوں کی جا رہی ہے؟

چالان کی رقم کا تعین کس بات پر کیا جاتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کا تعین کس بات پر ہونا چاہیے ۔ کیا اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو سستی چیز پر سوار ہو گا اس سے چالان کی مد میں کم رقم وصول کی جائے گی اور مہنگی سواری پر سوار فرد سے چالان کی زیادہ رقم وصول کی جائے گی ؟ یا اس کا تعین ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں سنگینی اور حادثات کے تناسب کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے ؟

اگر تو اصول یہ ہے کہ قوانین پامال کرنے والے کی سواری کی مالیت کے مطابق فیصلہ ہو گا اور موٹر سائیکل چونکہ سستی سواری ہے اس لیے اس سے پانچ گنا کم چالان وصول کیا جائے گا اور کار اور جیپ سے پانچ گنا زیادہ چالان لیا جائے گا تو پھر اس اصول سے چند مزید سوالات جنم لیں گے ۔ مثال کے طور پر یہ سوال اٹھے گا کہ پھر مہران اور پراڈو کے چالان میں فرق کیوں نہیں ہے ؟

ایک گاڑی نو دس لاکھ لاکھ کی ہے اور دوسری گاڑی ڈیڑھ کروڑ کی ہے ، اگر فیصلہ کن عامل سواری کا سستا یا مہنگا ہونا ہے تو مہران اور ایف ایکس کا چالان بی ایم ڈبلیو یا لینڈ کروزر کے برابر کیسے ہو سکتا ہے ؟ اگر موٹر سائیکل سوار پر اس کی غربت اور سفید پوشی کی وجہ سے نرمی برتی جا رہی ہے تو اس نرمی کا اسی تناسب سے سب پر اطلاق ہونا چاہیے ۔ پھر ایف ایکس اور مہران کا چالان 3 ہزار ہونا چاہیے ، 660 سی سی کی جاپانی گاڑیوں کا چالان 5 ہزار تک ، کرولاکا چالان 6 ہزار ، ہنڈا کا 7 ہزار تک ، پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کون سی کار کس ماڈل کی ہے ۔۔۔۔ یوں چلتے چلتے لینڈ کروزر کا چالان 50 ہزار تک ہونا چاہیے جس میں بیٹھے ڈرائیورز کی رعونت اکثر خوفناک حادثات کا سبب بنتی ہے۔

دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چالان کا تعین اس بات پر کیا جا ئے کہ کون زیادہ حادثات کا سبب بنتا ہے ۔ اس صورت میں اگر کار کا چالان 10 ہزار تجویز کیا گیا ہے تو موٹر سائیکل کا چالان 15 ہزار ہونا چاہیے تھا ۔ یا کم از کم دس ہزار تو ہوتا ۔ یاد رہے کہ ہم ہائی وے کی نہیں لاہور شہر کی بات کر رہے ہیں ۔ آئی جی خود کسی روز ٹریفک پولیس کے دفتر چلے جائیں اور ان سے پوچھیں کہ ریکارڈ دیکھ کر بتایا جائے لاہور شہر میں کون زیادہ حادثات کا باعث بن رہا ہے ۔

جو تناسب وہ بتائیں اسی کی بنیاد پر جرمانوں کا تعین کر دیا جائے ۔ لاہور پولیس کے ایک افسر کے مطابق لاہور میں روزانہ قریبا 7 سے 8 ہزار ٹریفک حادثات ہو رہے ہیں جن میں لوگ زخمی ہوتے ہیں ، نقصان اٹھاتے ہیں اور معذور بھی ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں 80 فیصد حادثات کا باعث موٹر سائیکل سوار بنتے ہیں ۔ اب اگر ایک شہر میں 80 فیصد حادثات کا باعث موٹر سائیکل سوار بن رہے ہیں تو کیا ان کے ساتھ نسبتا زیادہ سختی کی جانی چاہیے یا نرمی؟

کیا آپ نے کبھی سڑکوں پر انہیں اودھم مچاتے نہیں دیکھا ۔ ان کے لیے کوئی قانون کوئی ضابطہ نہیں ۔ یہ کسی بھی جانب سے آ دھمکتے ہیں ۔ ہیلمٹ کی آج کل سختی ہے تو یہ ہیلمٹ کے اندر موبائل ٹھونس کر باتیں کر رہے ہوں گے اور یہ توفیق نہیں ہو گی کہ رک کر ایک طرف ہو کر باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلہ خیال کر لیں ۔ ہر ٹریفک سگنل یہ لوگ پامال کرتے ہیں ۔ ون ویلنگ کرتے ہیں ۔ کسی نے سائیڈ مرر نہیں لگایا ہوتا ۔ انڈی کیٹر دینا توہین سمجھا جاتا ہے ۔ کبھی پکڑے جائیں تو دو سو روپے جرمانے کی پرچی لہراتے ہوئے اسی ٹریفک پولیس اہلکار کے سامنے سے دس بار ریسیں لگاتے گزرتے ہیں اور زبان حال سے اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ تم اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتے ہو ۔

یہی حال پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز کا ہے ۔ یہ احساس نہیں کہ پچاس ساٹھ لوگوں کی زندگی کا دارومدار ان پر ہے یہ سارا رستہ موبائل پر مشغول رہتے ہیں ۔موٹر وے پر اب لوگوں کو پتا ہے کہاں کہاں پولیس کیمرے لگا کر بیٹھی ہے یہ وہاں آہستہ ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد پھر وہی طوفان بد تمیزی ۔ موٹر وے پولیس کو اب ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنی چاہیے اور جہاں کوئی حد رفتار سے تجاوز کرتا یا موبائل استعمال کرتا ملے اسے اتنا جرمانہ کرنا چاہیے کہ دو چار ماہ وہ تلملا تا رہے۔

ایک شور مچا ہوا ہے کہ اتنے زیادہ جرمانے سفید پوش لوگوں کی کمر توڑ دیں گے۔ یہ شور بظاہر بڑا پر اثر ہے لیکن یاد رہے کہ غربت اور سفید پوشی جرم کا لائسنس نہیں بن سکتی ۔ ہر روز 7 ہزار سے زائد حادثات میں جو لوگ مر رہے ہیں ، زخمی ہو رہے ہیں اور عمر بھر کے لیے معذور ہو رہے ہیں ان کے گھر وں میں بھی قارون کا کوئی خزانہ نہیں ہے ۔ کسی کو کیا معلوم عمر بھر کے لیے اپاہج ہو جانے والا کاندان کا واحد کفیل ہو اور کسی لونڈے کی ون ویلنگ کے شوق نے اس کی ہی نہیں اس کے بچوں کی زندگی کی خوشیاں بھی چھین لی ہوں۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کار ڈرائیور بیس ہزار کماتا ہو اور دس ہزار جرمانہ دینا پڑے تو اس بے چارے کا کیا ہو گا ۔ یہ ایک کمزور اعتراض ہے ۔ میرے خیال میں اس کے ساتھ ایک دفعہ ایسا ہو جائے تو وہ اپنی پندرہ نسلوں کو وصیت کر کے مرے گا کہ ٹریفک قانون کی خلاف ورزی نہیں کرنی ۔ یاد رہے کہ قانون ، قانون ہوتا ہے اور وہ اس سے بے نیاز ہوتا ہے کہ مجرم کی مالی پوزیشن کیا ہے ۔ موٹر سائیکل سواروں اور ڈرائیوروں کی جو ہمدردی لوگوں میں جاگ پڑی ہے وہ سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو کسی نا تراشیدہ ڈرائیور کا ایک ماہ کا بجٹ متاثر ہو جانا اس سے بہتر ہے کہ اس کی بے ہودہ ڈرائیونگ کے نتیجے میں کسی کی جان چلی جائے یا کوئی معذور ہو جائے۔

البتہ اس سارے معاملے کو شفاف بنانے کے لیے اقدامات انتہائی ضروری ہیں ۔ یہ جرمانہ کرنے کا حق پولیس کو بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔ ورنہ یہ کام شروع ہو جائے گا کہ دو ہزار ہمیں دینا ہے یا دس ہزار کا چالان کروانا ہے ۔ یہ چالان صرف کیمرے کی آنکھ سے جاری ہونا چاہیے اور لوگوں کے گھروں میں رسید پہنچ جانی چاہیے ۔

ہمارے سماج کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم قاتل اور قانون شکن کی محبت میں گرفتار رہنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ دنیا بھر میں ٹریفک قوانین کے خلاف ورزی پر سخت جرمانے عائد کیے جاتے ہیں ۔ یہ مزے صرف پاکستان میں ہیں کہ لاگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالو اور پکڑے جاؤ تو صرف دو سو روپے جرمانہ ۔آپ ایک دفعہ سخت جرمانے عائد کر کے دیکھیے طالب علموں کی ساری شوخیاں اور ڈرائیوروں کی تمام مستیاں ہوا ہو جائیں گی ۔ جسے مستی کرنی ہے وہ موت کے کنویں میں جا کر فن کے جوہر دکھائے ۔ سڑکوں پر خلق خدا کی زندگی داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے