یہ جو دانش گردی ہے

یہ جو دانش گردی ہے ، کبھی آپ نے سوچا کہ اس کے پیچھے کون ہے اور اس سے نبٹنے کا کیا طریقہ ہے ؟

ہمیں احساس تک نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف ایک فکری یلغار اپنے عروج پر ہے ۔ اس یلغار میں غنیم کے پیادے ، الا ماشاء اللہ ، وہ ہیں جن کے فکری شجرہ نسب میں کوئی نہ کوئی این جی اور یا غیر ملکی ادارہ آتا ہے ۔ آزادی رائے کے نام پر انہوں نے ایک اودھم مچا رکھا ہے ۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک بن چکا ہے جہاں سر شام کرنٹ افیئرز کے نام پر ریاست کو ، ریاستی مفادات کو اور ریاستی اداروں کو سینگوں پر لے لیا جاتا ہے ۔ جو جتنا زیادہ خبث باطن کا مظاہرہ کرے گا وہ اتنا ہی روشن خیال ، اعتدال پسند اور معقول صاحب دانش قرار پائے گا ۔چونکہ اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی بلکہ ان کی عملا سر پرستی کی جاتی رہی ہے اس لیے یہ دانش گردی اب ایک ناسور بن چکا ہے ۔ گاہے سلیم احمد یاد آتے ہیں ، ان کے ایک کالم کا عنوان تھا : آزادی رائے کو بھونکنے دو ۔ سوال مگر اب یہ ہے کہ کتنا اور کب تک ؟

دہشت گردی کے آزار کو تو ریاست نے مخاطب بنایا لیکن دانش گردی کی سنگینی کو ابھی تک سمجھا ہی نہیں گیا ۔ چنانچہ مدارس سے تو ذرائع آمدن سے لے کر ان کی سرگرمیوں تک سوالات ہوئے لیکن این جی اوز کو ملنے والی ڈونیشنز اور ان ڈونیشنز کے استعمال پر کبھی ریاست نے سنجیدگی سے سوال نہیں اٹھایا کہ یہ کیا واردات ہو رہی ہے ۔

مہنگے ہوٹلوں میں یہ ادارے اپنے پروگرام منعقد کرتے ہیں اور عموما ان کے شرکاء سانجھے ہوتے ہیں ۔ پیشہ ور حاضرین ، کبھی ایک ادارے کے پروگرام میں تو کبھی دوسرے ادارے کی تقریب میں ۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس پیشہ ور انجمن ستائش باہمی کے آخر وہ کون سے کمالات ہیں کہ مغربی ادارے انہیں بھاری فنڈنگ کرتے ہیں؟ یہ ایک فکری واردات ہے اور جن کے ہاتھ میں لگام ہے وہ پیادوں کو ادائیگی کرتی ہے۔اور پھر یہ پیادے اپنے کام میں جت جاتے ہیں۔

مذہب ، ریاست ، سماجی اور اخلاقی اقدار ، ہر چیز ان کے نشانے پر ہے ۔ جارحیت اتنی شدید ہے کہ مذہب پر بات کرتے لوگ اب جھجھک سے جاتے ہیں کہ کہیں انتہا پسندی کا طعنہ نہ مل جائے ۔ ریاست کو گالی دینا فیشن بنا دیا گیا ہے ۔ دنیا کا ہر ملک اپنی تاریخ اپنے تناظر میں دیکھتا لیکن پاکستان میں آپ پاکستانی ریاست کو گالی دیے بغیر تاریخ بیان کریں تو آپ کو ’’ مطالعہ پاکستان‘‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ 6 ستمبر کو قوم یوم دفاع منانے لگے تو یہ دانش گرد آجاتے ہیں کہ یہ جنگ تو آپ ہارے تھے ۔

ان کے نزدیک دنیا کی تمام خرابیاں صرف پاکستان میں ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ غلطیاں کیں ۔ ان کے مطابق پاکستانی قوم کو اپنی تاریخ کے کسی موڑ پر فخر نہیں کرنا چاہیے ، ان کا مطالبہ ہے پاکستانی صرف نفسیاتی مریض بن کر زندہ رہیں اور ہمیشہ خود کو لعنت ملامت کرتے رہیں ۔ بھارت سے تعلقات خراب ہیں تو ذمہ دار پاکستان ہے ، افغانستان شر پسندی کر رہا ہے تو قصور پاکستان کا ہے اور امریکہ خفا ہے تو اس میں بھی غلطی پاکستان کی ہے ۔ پاکستان کی سفارتی تاریخ ان کے نزدیک شرمناک غلطیوں کا ایک پلندہ ہے ۔ اس میں سے کوئی ڈھنگ کی چیز بر آمد کی ہی نہیں جا سکتی ۔

پاکستان چین سے معاملات آگے بڑھائے تو یہ کہیں گے یہ بہت غلط فیصلہ ہے اس سے امریکہ ناراض ہو جائے گا ۔ سی پیک کی بات چلے گی تو یہ چین کو مسقبل کا سامراج بنا کر پیش کریں گے اور موجودہ سامراج یعنی امریکہ کی بات ہو گی تو یہ کندھے اچکا کر کہیں گے سپر پاور سے کیسے لڑا جا سکتا ہے ۔ ایران چاہ بہار میں بھارت کو لا بٹھائے گا تو یہ کہیں گے گلوبل اکانومی کی نفسیات سمجھیے اس میں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور پاکستان گوادر میں سعودی عرب کو سرمایہ کاری پر راضی کرے گا تو یہ خوش ہونے کی بجائے منہ بنا کر ہمیں ڈرائیں گے اور کہیں گے ایران تو بس اب آپ سے خفا ہونے ہی والا ہے ۔ بھارت جنون کی حد تک نفرت میں اندھا ہو کر پاکستان کو دھمیاں دے یہ سکون سے روشن خیالی کی زلفیں سنوارتے رہیں گے ، بھارت سرجیکل سٹرائل ڈے منانے جیسی بے ہودگی کرتا رہے یہ خاموش رہیں گے اور پاکستان کا وزیر اعظم ایک ٹویٹ کر دے تو یہ سر پیٹتے باہر نکل آئیں گے کہ وزیر اعظم نے یہ کیا غلط کام کر دیا۔

مغربی تہذیب کی یلغار کے خلاف کوئی بات کرے تو یہ اسے جاہل ہونے کا طعنہ دیں گے کہ دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے ، یہ اسے سمجھائیں گے کہ زبان اور کلچر سانجھے ہوتے ہیں لیکن کہیں کوئی عربی بول لے یا عرب تہذیب کا کوئی رنگ ساتھ لے کر سماج میں نکل آئے تو یہ چیخنا شروع کردیں گے کہ پاکستانیت بدو ہونے جا رہی ہے ۔ عید الاضحی آئے تو یہ رونا پیٹنا شروع کر دیں گے کہ جانور ذبح کرنے کی بجائے غریبوں کی مدد کرنی چاہیے ۔ لیکن ویلنٹائن ڈے یہ خاندانی تہوار کی طرح منائیں گے اور معاشرے کی غربت یاد نہیںآئے گی۔

مقصد یہی ہے کہ فکری طور پر پاکستانیوں کو اپاہج کر دو۔پاکستانیت کا کوئی حوالہ ان کے لیے قابل فخر نہ رہے۔ مذہب سے نسبت کو ملامت بنا دو ۔ پاکستان کی تشکیل پر سوال اٹھاؤ ۔ اقبالؒ کو ان کے اجتماعی حافظے سے محو کروا دو ۔ اداروں کو ہر وقت کٹہرے میں کھڑا کیے رکھو ۔ خطے میں تناؤ کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دو ۔ اس واردات کو سمجھنے کے لیے کسی روز سات سے گیارہ تک سکرینوں پر بجتی ڈگڈگیاں سن لیجیے ، اپنی ہی ریاست کو یاروں نے سینگوں پر لیا ہو گا ۔ ریاست سے غلط فیصلے بھی ہوتے ہیں اور درست بھی لیکن یہ کیسی واردات ہے جو ہر وقت ریاست کو کٹہرے میں کھڑے کیے ہوئے ہے۔

سلیم احمد کا مشورہ سر آنکھوں پر کہ آزادی رائے کو بھونکنے دو سوال مگر یہ ہے کہ کب تک اور کتنا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے