جواد نظیر کی یاد میں

میرے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے دوست ہی اتنے پیارے، اتنے سارے اور ایسے زبردست تھے کہ عملی زندگی میں دوستیاں نہ ہونے کے برابر رہیں۔

اک اور وجہ یہ بنی کہ مجھے سوشلائز کرنے سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ اس مخصوص اور محدود حلقہ احباب میں نقب لگی بھی تو نہ ہونے کے برابر خصوصاً جرنلزم میں تو بہت کم ،حالانکہ اس شعبے میں تقریباً 45برس بیت گئے۔ گپ شپ علیک سلیک بہت سے لوگوں سے ہے لیکن دوست بہت ہی کم، جواد نظیر ان بہت ہی کم لوگوں میں سے ایک تھا۔ ہمارا تعارف تعلق تو بہت پرانا تھا جو گزشتہ تقریباً پندرہ سال میں دوستی کا روپ دھار گیا جس کی وجہ’’بیلی پور‘‘ تھا۔ 2000میں جب میں ماڈل ٹائون سے اپنے آباد کردہ ویرانے میں شفٹ ہوا تو جواد نظیر کو میری یہ مہم جوئی اور’’بیلی پور‘‘ بہت پسند آیا کیونکہ اس گھر کے ماحول نے اس کے اندر مرچکے پینڈو کو پھر سے زندہ کردیا تھا۔ پانی، پرندے اور پودے اسے بھی اتنے ہی پسند تھے جتنے مجھے۔

ہم دونوں مل کر درخت لگاتے، پیپل، کیکر، شہتوت، نیم، کھجور، جامن، لسوڑھی اور بیری کے جانے کتنے پودے ہم نے مل کر لگائے۔ بڑی تگ و دو کے بعد ہم نے سنگترے کے پودے حاصل کئے، تین میں سے ایک چلا اور اسے اتنا پھل لگتا ہے کہ شاخیں زمین بوس ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ہم دونوں’’باغبانی‘‘ سے فارغ ہو کر کبوتروں، مرغیوں،بطخوں، کونجوں، موروں کو دانہ چوگا ڈالتے، خرگوشوں، بکریوں کو چارہ ڈالتے۔ فوارے کے ساتھ بیٹھ کر دو تین بار’’ٹی بریک‘‘ انجوائے کرتے۔ مرغیوں کو اٹھکیلیاں کرتے دیکھ کر اسے اپنا بچپن اور والدہ یاد آجاتیں جو سرشام مرغیوں کو تاڑنے میں جت جاتیں اور انہیں مختلف ناموں سے پکارتیں۔

جواد بھی’’بیلی پور‘‘ کے بیلیوں میں شامل ہونا چاہتا تھا جس کی نوبت کبھی نہ آئی۔شام ڈھلے ہماری دوسری، اصلی اور لمبی نشست شروع ہوتی جس میں ادب سے لے کر سیاست اور تاریخ تک کی شامت آجاتی۔ پرانے گیت سنے جاتے، نئے ہوائی منصوبے ا ور قلعے بنائے جاتے جس میں میرے پرانے دوست بھی شریک ہوتے جو بتدریج جواد کے بھی دوست بن چکے تھے۔ جواد بہت پڑھالکھا اور بہت ہی اوریجنل سوچ کا مالک تھا جو ہمارے ہاں خاصی نایاب ہے۔ ہمارے درمیان کتابوں کا تبادلہ بھی بہت عام تھا۔ وہ ککنگ، قدیم سینہ بہ سینہ نسخوں کا شوقین تھا۔ سردیوں میں اکثر بیک یارڈ میں باربی کیو کا بندوبست کرتے۔

حیران کن بات ہے کہ شکار پور سندھ کے بعد اگر میں نے کبھی ڈھنگ کا اچار کھایا تو وہ جواد نظیر کی ہدایات کے تحت تیار کیا گیا اچار تھا۔وہ’’پانچواں درویش‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتا جس پر اکثر ہم دونوں کی منہ ماری ہوجاتی۔ میرے اعتراضات یہ تھے کہ سرداروں کے لطیفے بند نہیں تو کم ہی کردو اور دوسرا یہ کہ مرچکے اسلوب کو زندہ کرنے کی کوشش نہ کرو کہ جسے وقت اور تاریخ نے ماردیا ہو، اسے کوئی زندہ نہیں کرسکتا لیکن ضدی، اکھڑ، جھگڑالو جواد کہاں مانتا اور وہ بھی شام گئے، چند سال پہلے ہم’’بیلی پور‘‘ سے چند سال کے لئے PCSIRوالے گھر منتقل ہوئے تو زمینی فاصلے بہت سمٹ گئے کیونکہ کچھ ہی عرصہ بعد جواد نے بھی ریونیو کالونی میں گھر خرید لیا تھا۔ہمارےPCSIRوالے گھر میں’’میرا علاقہ‘‘ بیسمنٹ تک محدود ہے جو دو بیڈ رومز، ڈرائینگ، ڈائننگ، لائبریری پر مشتمل ہے جس کے تین طرف’’اوپن ٹواسکائی‘‘ ایریاز ہیں جہاں پانی، پودوں، کبوتروں ا ور فاختائوں کا اہتمام ہے۔

یہ ارینجمنٹ جواد کو بہت پسند تھا۔ وہ اکثر شام ڈھلے آتا اور دیر سے جاتا۔ یہاں تک کہ چند ماہ پہلے چھوٹی بھابھی ارجمند نے فون کیا اور کہا،’’حسن بھائی! جواد آپ کی طرف جاتے ہیں تو واپس آنا ہی بھول جاتے ہیں پلیز، انہیں ذرا جلدی نکال دیا کریں اور یہ نہ بتائیں کہ میں نے آپ کو فون کرکے ایسا کہا ہے‘‘۔ میں جواباً ہنس پڑااور اس وقت تنہا یہ لکھتے اور اندر ہی اندر روتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوں کہ اب اچانک جواد جہاں چلا گیا ہے، ارجمند بھابھی اسے وہاں سے کیسے بلائیں گی، کسے فون کرکے کہیں گی کہ جواد کو ذرا جلدی بھیج دیں۔رب ا لعزت! پانچواں درویش ترے حضور پیش ہوچکا۔ اسے اپنے بے کراں رحم و کرم سے نواز دے۔ وہ بہت تھکا ہارا تیرے حضور پیش ہوا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے