نیوٹن اور اقبال کی درگاہ

اصولی طور پر کیمبرج میں کسی نازنین سے ٹکراؤ ہونا چاہیے تھا، وہ ہم سے ٹرینٹی کالج کا راستہ پوچھتی اور جواب میں ہم معصومیت سے کہتے کہ ہم بھی وہیں جا رہے ہیں مگر کوئی لے جانا والا ہی نہیں، وہ ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتی، پھر ہم دریا کی طرف نکل جاتے، کشتی لیتے اور کیمبرج کا چکر لگاتے، شام کو کسی کیفے میں کھانا کھاتے اور اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہتی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ویسے بھی آج کل کے لکھاری بہت شریف ہو گئے ہیں، کسی سفر کی روداد لکھتے وقت وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ پڑھنے والے کو شہر کے نائٹ کلبوں اور حسیناؤں کے تذکروں سے کوئی دلچسپی نہیں، لوگ تو فقط شہر کی تاریخ، ثقافت اور موسم کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ میں بھی یہی فرض کر لیتا ہوں۔

خدا کو جان دینی ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ آکسفورڈ کے بعد کسی اور یونیورسٹی کی سیر کرنے کا دل نہیں تھا، مگر محبی اجمل شاہ دین کا کہنا تھا کہ دونوں یونیورسٹیوں کا تقابلی جائزہ ضروری ہے۔ محبت کرنے والے دوست کی بات ٹالنا آسان نہیں ہوتا۔ کیمبرج کے جس ہوٹل میں ہماری رہائش کا انتظام تھا وہ بالکل ریلوے اسٹیشن کے نزدیک تھا، ہماری کھڑکی سے پلیٹ فارم دکھائی دیتا تھا، ہوٹل کی خاص بات اِس کا اچھوتا ڈیزائن تھا، چھوٹی سی جگہ کو نہایت عمدگی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا، اڑھائی سو کمروں کے اس ہوٹل کو کُل ساٹھ لوگ چلا رہے تھے۔

کیمبرج کے بیچ بہنے والے دریا کو ’’کیم‘‘ کہتے ہیں، آپ کشتی کے ذریعے دریا میں گھوم کر پورے کیمبرج کا چکر لگا سکتے ہیں، کم و بیش تمام کالج دریا کے کنارے واقع ہیں، یوں کہیے کہ ہر کالج کے ساتھ دریا لگتا ہے، یوں تو ہر کالج ہی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے مگر دو کالج کیمبرج کی جان ہیں، ایک کنگز کالج اور دوسرا ٹرینٹی۔ ہمارے پاس ایک کالج دیکھنے کا وقت تھا، ہم نے ٹرینٹی کا انتخاب کیا۔ یہ کیمبرج کا سب سے بڑا کالج ہے، یہ کالج قریباً پانچ سو سال قبل شاہ ہنری ہشتم نے قائم کیا تھا، اس اکیلے کالج سے آج تک 25لوگ نوبیل انعام جیت چکے ہیں۔ یہ وہی کالج ہے جہاں 1661سے 1696تک سر آئزک نیوٹن نے اپنی تحقیق کی اور 1687میں اپنی کتابPrincipia Mathematicaشائع کی۔

کالج کے دروازے پر پہنچتے ہم نے اُس درخت کے بارے میں پوچھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نیوٹن اُس درخت کے نیچے بیٹھا تھا جب اُس کے سر پر سیب گرا اور پھر اسے کشش ثقل کے قانون کا خیال آیا، ہمیں بتایا گیا کہ یہ درخت دراصل کالج کے دروازے سے باہر ایک چھوٹے سے باغ میں ہے، یہ باغ کالج کے مرکزی دروازے Great Gateاور اس کے ساتھ متصل گرجے کے درمیان ہے، کالج کی پہلی منزل پر نیوٹن کا کمرہ ہوا کرتا تھا اور ایک طرح سے یہ باغ نیوٹن کا ہی سمجھا جاتا تھا، مگر یہ درخت Woolsthorpe میں واقع اُس کے گھرسے اکھاڑ کر 1954میں ٹرینٹی کالج کے باغ میں لگایا گیا۔

ٹرینٹی کالج ہم نیوٹن کی محبت میں پہنچے تھے، لیکن یہاں پہنچ کر ہمیں پتہ چلا کہ علامہ اقبال بھی یہاں زیر تعلیم رہے ہیں، کالج کی تعریفی کتاب میں جن ممتاز شخصیات کا ذکر ہے اُن میں علامہ اقبال کا نام شعرا کے خانے میں درج ہے، اقبال کے ساتھ جن مزید شعرا کے نام یہاں پڑھے اُن میں لارڈ بائرن، لارڈ میکالے (المشہور نظام تعلیم والے)، لارڈ ٹینی سن اور کئی دوسرے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے ٹرینٹی کالج سے فیض پایا، ان میں کئی برطانوی وزرائے اعظم کے علاوہ بھارت کے جواہر لعل نہرو بھی ہیں، سائنس دانوں اور ریاضی دانوں میں میکس ویل جس نے برقی لہریں دریافت کیں، سر فرانسس گیلٹن جس نے انگلیوں کے نشانات کی کارکردگی کا ثبوت دیا، لارڈ ردرفورڈ جس نے پہلی مرتبہ ایٹم کے نیوکلیس کو منقسم کیا، ٹرینٹی کالج کے فلسفیوں میں فرانسس بیکن، جیمس وارڈ، برٹرینڈ رسل اور وہائٹ ہیڈ شامل ہیں جبکہ لکھاریوں میں انگریز ناول نگار بولور لٹن (جس کے نام پر لاہور کی لٹن روڈ ہے) اور تھاکرے شامل ہیں۔ یہ اُن ناموں کا پانچ فیصد بھی نہیں، کئی جج، بشپ، موسیقار، تاریخ دان اور سیاست دان اس کے علاوہ ہیں جن پر ٹرینٹی کالج کو ناز ہے۔

اس پُرشکوہ کالج کا نقشہ کھینچنا ممکن نہیں، کالج کا جادو ایسا ہے کہ آپ اندر داخل ہوتے ہی مبہوت ہو جاتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے یہیں کہیں نیوٹن کی روح موجود ہے، دور کسی باغ میں علامہ چہل قدمی کر رہے ہیں، کسی جماعت میں برٹرینڈ رسل فلسفے کی گتھیاں سلجھا رہا ہے، کسی لیبارٹری میں ردر فورڈ ایٹم پر تجربے کر رہا ہے، کسی کتاب خانے میں بیکن محو مطالعہ ہے اور اوپری منزل کے کسی کمرے میں ٹینی سن پر آمد ہو رہی ہے۔ کالج کا گرجا گھر دیکھنے کی چیز ہے، گرجے کے اندر چھ لوگوں کے مجسمے ہیں، انہیں Trinity Menکہا جاتا ہے، یہ مجسمے آرٹ کا ایک شاہکار ہیں، انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ابھی یہ لوگ اٹھ کر چلنا پھرنا شروع کر دیں گے۔

پہلا مجسمہ ظاہر ہے کہ نیوٹن کا ہے، دوسرا مجسمہ فرانسس بیکن کا ہے (بیکن 1618-21تک لارڈ چانسلر بھی تھا)، تیسرا مجسمہ لارڈ میکالے کا ہے، چوتھا مجسمہ آئزک بارو کا ہے، یہ شخص نیوٹن کا ٹیوٹر تھا، جب نیوٹن ٹرینٹی کالج میں آیا تو اسی نے نیوٹن کا جوہر تلاش کیا، ٹرینٹی کالج کی عظیم الشان لائبریری بھی اسی ماہر تعمیرات نے بنائی، پانچواں مجسمہ ولیم ویول کا ہے جبکہ چھٹا مجسمہ شاعر ٹینی سن کا ہے۔ نیوٹن کا مجسمہ ایک فرانسیسی مجسمہ ساز Roubiliacنے بنایا جس کے بارے میں کیمبرج والوں کا کہنا ہے کہ یہ آرٹ کے چند بہترین نمونوں میں سے ایک ہے، عین نیوٹن کے مجسمے کے پیچھے دیوار پر اُن چار سو ٹرینٹی افراد کے نام کندہ ہیں جو دوسری جنگ عظیم کی بھینٹ چڑھ گئے۔

کیمبرج درسگاہ نہیں بلکہ درگاہ ہے، یہاں علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں، مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ کیمبرج اور آکسفورڈ سے نکلا ہوا ہر شخص ہی اعلیٰ و ارفع کردار اور صلاحیتوں کا مالک ہو، کیمبرج جیسی یونیورسٹیاں آپ میں ایک شان اور تمکنت تو ضرور پیدا کرتی ہیں مگر یہ قطعاً ضروری نہیں کہ یہاں کا فارغ التحصیل اعلیٰ کردار کا حامل بھی ہو، کردار اور نصابی تعلیم دو الگ چیزیں ہیں، اگر آپ کیمبرج یا آکسفورڈ میں نہیں پڑھ پائے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اعلیٰ کردار کے حامل انسان نہیں بن پائیں گے، ٹرینٹی کالج کا ہر طالب علم اقبال یا بیکن نہیں ہوتا، اگر آپ کے اندر تڑپ ہے تو اِن یونیورسٹیوں کے بغیر بھی آپ امر ہو سکتے ہیں، یہ یونیورسٹیاں اُس تڑپ کو فقط مہمیز کرتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے