عثمان بُزدار کامعاملہ۔۔۔!

ایک نِجی ٹیلی ویژن پر معروف پروگرام میں وزیرِ اعلیٰ عثمان بُزدار صاحب کی ڈمی کا دخول کُچھ اس انداز سے ہوتاہے کہ وہ ایک پولیس اہلکار جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے اورساتھ ہی تین چار لوگ جن میں دو نے ان کےدائیں وبائیں بازو پکڑے ہوئے ہیں باقی جو ایک دو آدمی ساتھ ہیں وہ بھی کچھ اسی طرح کی غیرمعقول صورت حال کی تصویر مکمل کررہے ہیں۔ بُزدارصاحب کی ڈمی سے جب کُچھ پوچھاجاتاہے تواول تو دو یاتین بار سائل بات دُہراتا ہے ۔ پھر بُزادار صاحب کاجواب بھی اس طرح سے آتاہے کہ جیسے اُنھیں بولنے کاطریقہ ہی نھیں آتابلکہ اُنھیں کسی جھونپڑی سے اُٹھاکر ایک بہت اعلیٰ قسم کی جگہ پر لاکھڑاکیااورحاضرین کے سامنے وہ بولنے کی سکت بھی نھیں رکھتے ۔یہ وہ تصویر ہے جو آئے دن کسی نہ کسی ٹیلی ویژن پر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ جو ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں پیش کی جاتی ہے ۔

عام انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل ہوئی تومُختلف دانش وروں اورسیاسی جوڑتوڑ کے ماہرین کے زبان وقلم پر چیدہ چیدہ نام تھے کہ جن پر تاجِ تختِ لاہور سَجنا تھا ۔عمران خان صاحب کے ہاں کُچھ اور سوچاجارہاتھا اوروہ "وفاق” کی مضبوطی کے لیے ایک "جامع” منصوبے پرعمل پیرا ہونے کاتہیہ کیے ہوئے تھے ۔

عمران خان صاحب نے پہلے 100 دن کے منصوبے میں چند ایک باتیں اہم مگر مُشکل شامل کیں تھیں اور ان میں ایک "جنوبی پنجاب صوبہ” کی بابت تھی ۔ اسی بُنیاد پر پاکستان مُسلم لیگ نوازجنوبی پنجاب کے بہت سے اہم سیاسی ناموں سے محروم ہوئی اوراِن سیاست دانوں نے "جنوبی پنجاب صوبہ محاذ” قائم کیاجوبعدازاں پاکستان تحریک انصاف میں ضَم ہوگیا۔جنوبی پنجاب سے ہی پاکستان تحریک انصاف کو نُمایاں کامیابی مِلی اوریہی کامیابی پنجاب ومرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں معاون ثابت ہوئی ۔

یہ دووُجوہات ایسی تھیں کہ عمران خان صاحب کو ایک غیر مُتوقع فیصلہ کرناپڑااوروہ تھا تونسہ سے رُکن پنجاب اسمبلی مُنتخب ہونے والے عُثمان بُزدار کی بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب نامزدگی۔اس طرح عمران خان صاحب نے سرائیکی خِطے کو علیحدہ صوبہ بنانے میں درپیش مُشکلوں سے کسی حد تک نِجات مدِ نظر رکھی تودوسری طرف جنوبی پنجاب سے نُمایاں کامیابی کا بظاہرصِلہ بھی دیا۔پھر جنوبی پنجاب سے بھی ایک نسبتا غیرمعروف نام کوسامنے لاکر یہ پتہ بھی کھیلاکہ ہم شُہرت یافتہ یا پھر طاقتور کوآگے لانے کی بجائے چھوٹے سیاست دانوں کواعلیٰ عہدوں پرفائزکرکے نئی رِیت قائم کررہے ہیں ۔
خانصاحب کے اس فیصلے کے بعد عثمان بُزدار کے خلاف ذرائع ابلاغ میں نیب کے کُچھ معاملات علاوہ قتل کے مقدمہ کابھی شوراُٹھا کہ یہ شخص خان صاحب کے نطریہ برائے نیاپاکستان پرپورانھیں اُترتا ۔مگر نیب اورعدالتی کارروائیوں کی تفصیلات نے اس مُہم کے خاتمے میں کرداراداکیاکہ دونوں معاملات قانونی طورپربہت پہلے ہی طے پاچُکے تھے ۔یوں وزارتِ عُلیاکے انتخابات ہوئے توعثمان بُزدار صاحب وزیرِ اعلیٰ مُنتخب ہوگئے جس سے بہت سی معروف سیاسی شخصیات کودھچکالگاکہ ہمارے ہوتے ہوئے یہ شخص اتنے بڑے عُہدے پر فائز ہوگیاہے۔

اس کے بعد بُنیادی وجہ تونھیں تھی کہ اس نئے نام کو بدنام کیاجائے سو اس شخص کی تصویر ذرائع ابلاغ میں اس طرح پیش کی جانے لگی کہ یہ ایک ایساشخص ہے جوایک غیرترقی یافتہ علاقے سے اُٹھ کر بڑے شہر اورعہدے پرآتوچُکامگراسے معاملات ِ حکومت کاکُچھ عِلم نھیں ۔اس میں ایک طبقہ وہ ہے جِسے بُزدار صاحب کے اس منصب پر ہونے سے سیاسی ہزیمت اُٹھانی پڑی اورایک طبقہ ایسا ہے جوجنوبی پنجاب سے ان کے تعلق کی وجہ سے بے بُنیاد تنقید کررہاہے۔ ہم لوگ پچھلے 10،15 برس سے پرویز الہی اور میاں شہباز شریف جیسے اہم ناموں کے عادی ہوچُکے ہیں جوسیاسی جوڑتوڑ کے ماہر،یقینا بُزدار صاحب سے زیادہ چُست اور معروف تھے ۔ایسے میں اچانک سے ایک غیرمعروف نام اتنے بڑے صوبے کی حکمرانی کے لیے سامنے آگیاتو ہمیں لگتاہے کہ جیسے پنجاب کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور اسے ایک نااہل شخص کے حوالے کردیاہے ۔

ان میں کُچھ لوگ تومُخالف سیاسی جماعتوں کے ہیں مگر ایسے بھی کئی اندرونی لوگ ہیں جو خان صاحب کو تو "تبدیلی ” کے لیے وقت دینے پرتیار ہیں مگر بُزدار صاحب کو لیے نھیں بلکہ چُٹکی میں ان سے مسائل کاحل چاہتے ہیں اور اشرافیہ کے ذریعے اُن کے کاموں میں رُکاوٹیں بھی پیداکررہے ہیں کیوں کہ انھیں بُزدارصاحب کاپسماندہ علاقے سےہوناکھٹکتاہے ۔سرائیکی خطے کے لوگ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی وجہ سےقریبا ایک دِہائی سے باقاعدہ سرائیکی صوبے کے لیے کام کررہے ہیں ۔پیپلز پارٹی ومُسلم لیگ کی حکومتوں کے بعدتحریک انصاف سے یہ اُمید تھی کہ وہ اس حوالے سے سنجیدہ اقدام اٹھائے گی اور کسی حد تک اس معاملے کو اہمیت بھی دی ۔ مگر انتخابات کے بعد اب تک کی صورت حال میں یہ معاملہ حکومتی سطح پر کسی سنجیدہ مجلس میں نُمایاں طور پر زیرِ بحث نھیں آیا ۔ایسے میں ذرائع ابلاغ میں عُثمان بُزدار صاحب کو محض سرائیکی خِطے سے تعلق کی وجہ سے ایک بھَولا یانااہل شخص بناکر پیش کیاجائے اوران کی تضحیک کی جائے تو یہ اس خِطے کے لوگوں کے خدشات میں اضافے کاسبب بنے گا ۔

ہمیں جن مسائل کاسامنا ہے ان کے حل کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہوگا ۔عُثمان بُزدار سمیت صوبائی حکمرانوں کووقت دیناہوگا چاہے ان کا پَسِ منظر جیسا بھی ہو۔ کسی پر بھی تنقید کے لیے کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے شخصی وذاتی تنقید یوں بھی مہذب معاشروں میں روا نھیں ہوتی ۔ ہمیں صوبائی ولسانی عصبیت کوکم کرنے کے لیے باہمی احترام کی روایت ڈالنی ہوگی نہ کہ کسی ایک زبان یاخطے سے وابستگی ہی قابلیت کامعیار ٹھہراکر دوسرے لوگوں کی تضحیک کرناچاہیے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے