اب صرف دعائے خیر ہی کی جا سکتی ہے

صاف گوئی ایک بہترین وصف ہے۔ عام افراد اسے اپنی زندگی میں اختیار کرلیں تو معاشرہ بہتر ہوجاتا ہے۔ ہیجان سے محفوظ رہتا ہے۔ سفارت کاری کے مگر اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ کامیاب ترین سفیر وہ ہے جو کسی غیر ملکی کے ساتھ گفتگو کے دوران اپنے ملک کے مفاد میں سفید جھوٹ بولتے ہوئے بھی اسے اپنے مؤقف کا حامی بنالے۔

دورحاضر میں لیکن کسی ملک کے لئے اپنی حقیقتیں چھپانا ممکن نہیں رہا۔گوگل کے فراہم کردہ نقشے ہیں۔ سیٹلائٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر ہیں۔ سو قسم کی Appsہیں جن کے ذریعے میرے اور آپ کے زیر استعمال سمارٹ فونز میں گھس کر نہ صرف ہماری ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو بلکہ سمارٹ فونز کے محض پاس ہونے کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ گھروں میں ہوئی گپ شپ کو بھی ٹیپ ریکارڈر کی طرح سن کر محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

مختصراََ یہ بات کہنے کے بعد آگے بڑھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے معاشی حقائق ہمارے دوستوں اور دشمنوں سے چھپے ہوئے نہیں۔ سب کو خبر ہے کہ ہماری برآمدات سکڑچکی ہیں۔ درآمدات پر ہوا خرچ برآمدات کے ذریعے ہوئی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ ریاست کو اپنا کاروبار چلانے کے لئے ٹیکسوں کے ذریعے خاطر خواہ رقوم میسر نہیں ہیں ۔قرضوں سے کام چلانا ہوتا ہے اور ان قرضوں کی یکمشت ادائیگی ناممکن ہے۔ فی الحال تو جمع شدہ قرضوں پرواجب الادااقساط ادا کرنا ہی مشکل نظر آرہا ہے۔ یہ بات بھی مگر اپنی جگہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ فقط پاکستان ہی ایسی مشکلات سے دو چار نہیں۔ دُنیا کے بے تحاشہ ممالک حتیٰ کہ اٹلی جیسا معاشی اعتبار سے بہت تگڑا ملک بھی ہمارے مقابلے میں سنگین ترین معاشی مسائل کا سامنا کررہا ہے۔

مجھے معاشیات کی باریکیوں کی ککھ سمجھ نہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے لیکن کئی غیرجانب داراور بہت ہی پڑھے لکھے افراد سے رجوع کیا تو علم ہوا کہ شاید پاکستان کے لئے ’’معاشی بحران‘‘ کا لفظ استعمال کرنا فی الوقت مناسب نہیں ۔

اصل ’’بحران‘‘ وہ ہوتا ہے جب حکومت اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے میں ناکام رہے۔ میں اپنی کسی ضرورت کے لئے ذرا بھاری رقم کا کوئی چیک لکھ کر بینک جائوں تو وہاں سے مطلوبہ کیش نہ مل پائے۔ اس کے علاوہ سائنسی بنیادوں پرمستند ٹھہرائے بے تحاشہ پیمانے ہیں جن کا سخت گیر اطلاق بھی پاکستان کے لئے ’’بحران‘‘ کے لفظ کو مناسب نہیں ٹھہرائے گا۔ ’’بحران‘‘ کے مقابلے میں ’’شدید مشکلات‘‘ کا ذکر ہونا چاہیے۔ مہنگائی اور کساد بازاری کی وجہ سے ان میں یقینا اضافہ ہورہا ہے اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مشکلات کا قلیل المدتی اور طویل المدتی حل دریافت کرکے ان پر عمل نہ کیا گیا تو پاکستان یقینا ’’معاشی بحران‘‘ کی خندق میں گرجائے گا۔

مبالغہ اور سیاپا لیکن ہماری سرشت کالازمی اور بسااوقات بنیادی جزو ہے۔ سیاسی اعتبار سے 25جولائی کے روز سے قائم ہوئی عمران حکومت کو پاکستان کے ’’دیوالیہ‘‘ ہوجانے کا اعلان اس لئے بھی مفید دِکھتا ہے کہ اس کی بنیاد پر زرداری اور نواز شریف کے دس سالوں کو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی حکومتیں ثابت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ دیوالیے کا سیاپا نیب کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباََ معذور ہوئے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگاکر عدالتوں کے روبروپیش کرے۔ ’’ذرائع‘‘ کے ذریعے خبریں پھیلا کر اچھے بھلے قابل اور عموماََ دیانت دار تصور کئے سرکاری افسران کو ’’اپنے نظر آنے والے ذرائع آمدنی‘‘ کے مقابلے میں قیمتی اثاثوں کا مالک بناکر پیش کرے اور انہیں معتوب بدعنوانوں کی صف میں کھڑا کردے۔

اپنے سیاسی مخالفین کو ’’چورلٹیرے‘‘ ٹھہراکر رگیدنا عمران حکومت کی سیاسی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعے ہوئے ناانصافیوں کے ظلم کی مذمت کے باوجود اس کی اہمیت کو سیاسی گیم پر نگاہ رکھنے والے خوب سمجھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کے لئے مگر یہ ہرگز مناسب نہیں تھاکہ غیر ملکی صحافیوں کے ایک گروہ سے آن دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے وہ پاکستان کو ’’اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دو چار‘‘بناکر پیش کرتے۔22کروڑ آبادی کا ملک جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے۔ عمران خان صاحب کی نظر میں اگر اس بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں سے قرض نہیں لے گی تو ’’دیوالیہ‘‘ ہوجائے گی۔

وزیر اعظم نے غیر ملکی صحافیوں سے جو گفتگو کی اسے پیر کے روز برطانیہ سے چلائی ایک ویب سائٹ ’’مڈل ایسٹ آئی‘‘ جو MEEکے مخفف سے مشہور ہے، کے دو صحافیوں نے Exclusiveانٹرویو بناکرپیش کیا ہے۔ اس انٹرویو کو پڑھتے ہوئے میں نے اپنا سرپکڑلیا۔ دل میں جو خواہش جاگی وہ یہ کہ وزیر اعظم کا کوئی مشیر جو صحافیوں کے ساتھ ہوئی اس گفتگو میں موجود تھا تھوڑی جرأت سے کام لیتا اور ان صحافیوں کو واضح الفاظ میں بتادیتا کہ وزیر اعظم کی گفتگو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ہے۔ صحافی اسے محضDeep Backgroundکے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ تیر مگر کمان سے نکل چکا ہے۔ اب صرف خیر کی دُعا ہی مانگی جاسکتی ہے۔

MEEمیں شائع ہوئے اس انٹرویو نے پوری عرب دنیا میں گلوبل اخبارات کے باقاعدہ قارئین کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کے بعد بھی پاکستان کے وزیر اعظم سعودی عرب کے ولی عہد کی جانب سے منعقد کروائی ایک تقریب میں اس وجہ سے حصہ لینے کو مجبور ہوئے کہ ان کے ملک کو ’’اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران‘‘ کی بناد پر سعودی قرضوں کی اشد ضرورت ہے۔ میری دیانت دارانہ رائے میں جمال خشوگی کے قتل کے بعد بنے عالمی تناظر میں یہ تاثر پھیلانا سفارتی اعتبار سے ہرگز مناسب نہیں تھا۔ زیادہ بہتر تھا کہ MEEکے ذریعے دنیا کو یہ بتایا جاتا کہ سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ملک ہے۔ اچھا برا وقت ہر ملک پر آتا ہے۔ جمال خشوگی کے قتل کے بعد سعودی عرب کی موجودہ قیادت پر یقینا ایک کڑا وقت نازل ہوا ہے۔ سعودی ولی عہد نے بہت اہتمام سے مگر اپنے ملک کو 2030تک جدید ترین ملک بنانے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ایک کانفرنس کا اہتمام بہت دن پہلے سے کررکھا تھا۔

اس کا مختلف عالمی سرمایہ کار کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے بائیکاٹ سعودی عرب کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے اور پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں سعودی عرب کو تنہا کرنے کی کوششو ں میں حصہ دار بننے کو ہرگز تیار نہیں۔ یہ بات کہہ دینے کے بعد وزیر اعظم صاحب کو ایران اور شام کے بارے میں اٹھائے سوالات کے صاف گو جوابات فراہم کرنے کی قطعاََ ضرورت نہیں تھی۔

یہ انٹرویو جس کا ذکر ہورہا ہے اس کے آخر میں سوال کرنے والے صحافیوں نے وزیر اعظم پاکستان کے امریکی صدر ٹرمپ کے خیالات پر تبصرہ کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ عمران خان صاحب نے کھلے انداز میں جواب دیا کہ چونکہ وہ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اس لئے اس بارے میں اپنی ذاتی رائے دینے سے پرہیز کریں گے۔ایسا کہتے ہوئے انہوں نے کرکٹ کے کھیل کے لئے مستعمل”Well Left”والی ترکیب کا استعمال بھی کیا۔ کاش وہ ایران اور شام کے بارے میںہوئے سوالات کے بارے میں بھی Well Leftوالا رویہ اختیار کرتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے