عوام تو عرصہ دراز سے عوام کی چیخیں سن ہی رہے تھے۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پنجاب کے بعد اب سندھ کے ’’خواص‘‘ کی سریلی چیخیں بھی سنائی دینے لگی ہیں۔عوام اور خواص کی زندگیوں ہی نہیں چیخوں میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے ۔عوام کی چیخیں صرف ’’راگ فریادی ‘‘ میں ہوتی تھیں جبکہ خواص کی چیخوں میں بہت ’’ورایٹی ‘‘ ہے ۔
’’ووٹ کی عزت‘‘ کے جمہوری راگ سے شروع ہونے والی یہ سیون سٹار چیخیں کئی راگوں کا حسین امتزاج ہیں جن میں ’’راگ غصہ‘‘ …’’راگ بے بسی ‘‘…’’راگ انتقام‘‘ …’’راگ دھمکی ‘‘…’’راگ دھونس‘‘ ( مالکونس کا بھائی ) کے ساتھ ساتھ ’’راگ دیپک‘‘ کی ہمشیرہ ’’راگ چنگاری ‘‘ بھی شامل ہے۔میں موسیقی کے اسرار و رموز سے تو واقف نہیں، موسیقی سننے کا شوقین ضرور ہوں لیکن مجھے اعتراف ہے کہ بچپن سے لیکر آج تک میں نے ایسی مسحور کن موسیقی کبھی نہیں سنی حالانکہ میں نے نوعمری میں نصرت فتح علی خان کے والد محترم استاد فتح علی خان اور تایا استاد مبارک علی خان جیسے عظیم گائیکوں اور موسیقاروں کو بھی ’’ریاض ‘‘کرتے دیکھا اور سنا ہے لیکن جو آج کل سن رہا ہوں اسے سن کر تو تان سین،
بیجو باورا اور بڑے غلام علی خان سے لیکر روشن آرا بیگم تک بھی پتھرا کے رہ جائیں۔میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ سرمایہ منی لانڈرنگ کے بعد آپریشن تھیٹر میں پہنچتے ہی اتنا سریلا ہو جائے گا کہ سات سروں کے بہتے دریا میں آگ سی لگ جائے گی۔قرۃ العین حیدر والے ’’آگ کا دریا‘‘ کے بعد یہ آگ کا دوسرا دریا ہے جسے دیکھ کر بانکا سجیلا منیر نیازی یاد آرہا ہے جس نے کہا تھا۔اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھاایسے میں اک اور مصرعہ بھی ہانٹ کرتا ہے’’اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے ‘‘ای سی ایل (ECL)میں نام آ جائیں توڈوب کے جانے کے علاوہ کوئی آپشن باقی ہی کہاں بچتا ہے ؟ ابھی تو ابتدائے عشق ہے چیخنا چلانا ،رونا دھمکانا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ مجنوں لیلیٰ کو دیکھ کر توبہ توبہ کرے گا، فرہاد شیریں کیلئے نہر کھودنے کی بجائے ’’انہار‘‘ کا ڈبہ خریدنے کو ترجیح دے گا،
ہیر رانجھے کو طمانچے مارے گی،سوہنی مہینوال کی مخبری کرکے خود موٹر بوٹ پر بیٹھ کر فرار ہو جائے گی، سسی پنوں کو اپنے سینڈل سے پیٹے گی کیونکہ اگر پنجاب میں پانچوں انگلیاں ایک برابر نہیں تو دروغ برگردنِ راوی، سندھ اسمبلی سے بھی خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مرحومہ مغفورہ کے 20سے 25ارکان پر مشتمل فارورڈ بلاک بننے کا امکان ہے ۔’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں ‘‘بندریا کے بارے مشہور ہے کہ جب پائوں جلنے لگتے ہیں تو بچے بھی نیچے رکھ لیتی ہے، یہ تو پھر بندے ہیں اور بندے بھی بہت سیانے کہ بھلا سیاست دان سے سیانا کون ہو گا ؟ آج نہیں تو کل سب سوچیں گے کہ ’’ کھان پین نوں بھاگ بھری تے دھون بھنون نوں جماں‘‘ والی بات نہ جمتی ہے نہ جچتی ہے۔ مرا خیال ہے کہ پنجابی زبان کے اس مشکل سے محاورے کا فری سٹائیل سا ترجمہ کر دوں تو بہت سوں کا بھلا ہو گا۔
مطلب اس کا کچھ یوں ہے کہ ’’بھاگ بھری تو عیاشی کرے لیکن جب اس کی قیمت چکانے یعنی گردن تڑوانے کی باری آئے تو بیچارے جمے کی شامت آجائے۔‘‘حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ جو سیاسی دیوتائوں اور جمہوری اوتاروں کے بچے کھچے اور اترن پر گزارہ کرنے والے ان کے درباری حواری ہوتے ہیں، صرف کھرچن پر زندہ ہوتے ہیں، انہیں ٹھیک سے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ اپنے چند چھیچھڑوں،ہڈیوں کیلئے مادر وطن کے ریوڑ در ریوڑ بیچ رہے ہیں۔آج کل ان کی ’’تربیت‘‘ بھی ہو رہی ہو گی کہ کس طرح اس ملک کے وسائل بے درد، بے دریغ طریقے سے باہر سمگل کئے گئے ۔سب نہ سہی کچھ نہ کچھ تو رجوع کی طرف مائل ضرور ہوں گے کہ پاکیزہ دودھ اور خالص خون کبھی نہ کبھی تو ضرور بول اٹھتا ہے۔
چشم بددور ………وہ بھی کہتے ہیں کہ دھیلے کی کرپشن کبھی نہیں کی اور ان کے ضمیر مطمئن ہیں حالانکہ مرے ہوئوں کا اطمینان کیا اور ہیجان کیا۔ دوسری طرف ان کا کلیم بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ دامن نچوڑ دیں تو ایسے صاف پانی کا سیلاب آ جائے کہ فرشتے وضو کیلئے ٹوئے پڑیں تو ان سب کی سننے ماننے میں برائی کیسی ؟ لیکن نہ ان کے پاس منی ٹریل نہ ان کے پاس اربوں کے جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کا کوئی جواب اور اوپر سے کوتوال کو ڈانٹ ڈپٹ’’ہم سب بھٹوز لڑنے کو تیار ہیں‘‘حالانکہ ایک بھی بھٹو نہیں’’حکومت کٹھ پتلی ہے ‘‘ناچ آپ رہے ہیں’’ایک چنگاری سب کچھ راکھ کر سکتی ہے ‘‘ایک چنگاری ، اتنی بھاری ؟’’چاروں طرف غم وغصہ ہے ‘‘نہیں ….چاروں طرف موسیقی ہےنت نئے راگ ایجاد ہو رہے ہیں ….مبارک ہو!