فوجی عدالتیں اورپولیس مقابلے۔۔۔!

بھلے دن تھے جب جی چاہالَٹھ لے کرآے اور تخت پر بیٹھنے والوں کو اُتار کر خود مسند پر جلوہ گَر ہوجایا کرتے ۔زمانہ بدلا تو لوگوں کامزاج بھی بدل چُکا تھا اوراِس بات کا اندازہ ہمیں بھی تھا ۔ مُمکن نہ تھا کہ لَٹھ سے کام چلایاجاے کہ اب ایسا کرنا مُشکل تھا کہ خود اقتدار پر قابض ہوکر چند درباری بلکہ مداریوں کو اکٹھا کر کے قوم کو پُتلی تماشا دکھایا جاے ۔ 2013ء کے نتخابات ہوے تو جو شخص بِرسرِ اقتدار آیا وہ اگر چہ ہماری مدد سے آیا مگر اُس کی فطرت میں "احسان فراموشی "ہے تو وہ اقتدار میں آکرہم سے ڈرنے کی بجاے ہمیں اپنی دسترس میں رکھنے کی کوششیں کرتا ہے ۔

ِہمیں انتظار تھا کہ کوئی جھول نظر آے تو مُلکی نظم پر گرفت مضبوط کی جائے سو وہی پُرانے طریقے کے مطابق کچھ لوگ میدان میں اُتارے ۔ وہ پارلیمان ونمائندوں کو گالیاں بھی دیتے اور کبھی کبھار پتھر وغیرہ بھی مارتے کہ اس سے سِوا کیاکرسکتے تھے ۔مگر یہ لوگ کام نہ دکھا سکے یاجتنی توقع تھی وہ ان سے نہ ہوسکا۔

"خدا”کاکرنا ایسا ہوا کہ اِسی دوران پشاور میں اَلم ناک سانِہا رونما ہوتا ہے تو یوں سمجھیے کہ چاندی لگ گئی ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی طاقت و دہشت کی دھاک بِٹھانے کااِس سے بہتر موقع شاید نہ ہاتھ آناتھا۔فوری طور پر یہ ہوا کہ حکومت وسیاسی جماعتیں” فرماں برداری ” کے لیے تیار ہوگئیں ۔مذاکرات کی طرف جو لوگ رُجحان رکھتے تھے اُن کے پاس اب کوئی جواز نہ بچاتھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہتے سو عسکری محاذ کھولنے کی حمایت کردی ۔طیاروں اور ٹینکوں سے کام لینے کا اختیار تو پہلے ہی تھا ہمیں مگر کُچھ زیادہ کی طلب تھی کہ یہ دھاک بِٹھانے کے لیے کافی نہ تھا۔

اِدھر یہ معاملہ تھا کہ پارلیمان سے "درخواست ” کی گئی کہ جنگ جیتنے کے لیےضروری ہے کہ ہمیں اختیار دیے جائیں ۔ سیدھی سی بات تھی کہ اُنھیں انتظامیہ کی کارکردگی پر اطمینان نہ تھا کہ اُن کے لگاے گئے مُنصف "بُز دِل ” تھے کیوں کہ وہ دہشت گردوں کو ضمانتوں پررِہا کردیتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ دہشت گرد ان مُنصفوں کو ڈراتے دھمکاتے تھے اور مُنصف ڈر جاتے ۔ پارلیمان نے 21ویں ترمیم منظور کر کے عالی جاہ کو "جنگ” میں لامحدود اختیارات دے دئیے ۔

فوجی عدالتوں کے قیام کامقدمہ کسی حد تک مضبوط تھا کہ سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ آپ کا قائم کیا نظام دہشت گردی کے مقدمات سُننے میں اورفیصلے کرنے میں دباؤ کاشکاررہتاہے۔نیزیہ کہ تھانےسے لے کر کچہری تک آنے میں گواہان،تفتیشی عملہ اور مُنصف بھی یاتوخرید لیے جاتے ہیں یا پھر ڈرادیے جاتے ہیں۔دلائل مضبوط تھے بات ماننا پڑی کہ "ضمیر” کی ملامت کے باوجود آئینی ترمیم کی منظوری دی گئی۔عدالتیں دوسال کے لیے قائم ہوئیں اور”نیشنل ایکشن پلان "کے تحت یہ بھی طے ہوا کہ ان دو سالوں میں عام عدالتی نظم میں بہتری کی کوششیں کی جائیں گی ۔دوسال گُزرے تو بات پھر وہی کہ جی مُدت میں توسیع چاہیے اور چاہیے بھی پارلیمان سے ۔پارلیمان نے ایک بار پھر توسیع دی اور مزید دوسال کے لیے متوازی نظام پر جمہوری مُہر لگ گئی ۔اب ایک بار پھر مدت میں توسیع کے لیے پارلیمان سے رُجوع کی تیاریاں ہورہی ہیں اور سیاسی جماعتوں کومنانے کی کاوشیں ہورہی ہیں۔

ہماری بے بسی دیکھیے کہ مُلک میں دوعدالتی نظام چل رہے ہیں اورساتھ ہی پولیس مقابلے بھی جاری ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ "خطرناک مُجرم” چوں کہ نشان نھیں چھوڑتے اس لیے ان کے خلاف ثبوت ہاتھ نھیں آتے جبکہ اُن کا وُجود مُلک کی سلامتی کے لیے مہلک ہے سو "پار” لگانا بہتر ہے۔ سانِحہ پشاور کے بعد سے اب تک ان گِنت پولیس مقابلے ہوےجن میں خطرناک مظفر گڑھ کی حُدود میں ہوااور لشکر جھنگوی کی اعلیٰ قیادت اُفق کے اُس پار بھیج دی گئی ۔ یہ وہ لوگ تھے جو سال ہاسال کال کوٹھڑیوں میں رہے اور قتل کے وقت بھی پولیس حراست میں مقدماتِ قتل کاسامنا کررہےتھے ۔

یقینی بات تھی کہ یہ لوگ مُلک کے خطرناک لوگوں میں سے تھے اور ان پر سنجیدہ مقدمات بھی تھے ۔یہی سوال ہے کہ اسی طرح کے لوگوں کے لیے فوجی عدالتیں بنائی گئیں تو کس سبب سے ماوراے عدالت قتل کیا گیا ۔؟ اسی گروہ کے ایک شخص کو دبئی سے بذریعہ انٹر پول گرفتار کیاگیا اور چند ماہ بعد ہی مقابلے میں قتل کردیاگیا۔کیامضحکہ خیز بات ہے کہ جس شخص کے خلاف اتنے ثبوت تھے کہ اُسے انٹر پول کے ذریعے گرفتار کیا گیا مگر اُس کا مقدمہ فوجی عدالت بھیجنے کی بجاےماوراے عدالت قتل کا راستہ چُنا گیا۔ بے گناہ افراد کاقتل اور بے بس خاندانوں کو پریشان کرنااس کے علاوہ ہے۔

کراچی میں نقیب اللہ محسود کا قتل اورساہیوال میں حالیہ مقابلہ نے یہ عیاں کردیا کہ کس طرح یہ لوگ انسانیت کا قتل کرتے ہیں اور کس سفاکیت وڈھٹائی سے اِ س بربریت کا دفاع کرتے ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ افواج کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے ترجمان بھی ان مقابلوں کو ملکی سلامتی ودفاع کی جنگ میں معاون بتاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ "نیشنل ایکشن پلان "کا ہی حصہ ہیں ۔ عرض یہ ہے کہ یہ ظلم اور غیرانسانی قتل جاری رکھنے ہیں تو فوجی عدالتوں سے کیاکام لیاجارہاہے۔

"نیشنل ایکشن پلان” و”تحفظ پاکستان ایکٹ "کے ذریعے پارلیمان نے محافظ اِداروں کو ایسی طاقت بخشی ہے کہ وہ دندناتے ہوئے آتے ہیں اور کسی کو اٹھا کر غایب کردیتے ہیں یاکسی کو سرِ راہ قتل کر کے "خطرناک مُجرم ” کی موت پر فاتحانہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔جو لوگ قبائلی علاقوں میں کاروائیوں کے دوران قتل وبے گھر ہونے والوں ،بلوچستان ،کراچی ا ور پنجاب سے اُٹھاے جانے والوں کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں تو اُنھیں دشمن مُلکوں کاآلہِ کار قرار دے کر عوام کو ان سے دوررکھنے کی مہم چلائی جاتی ہے ۔

پہلے سے ہی سب سے طاقت ور اِدارے کو جمہوری مُہر لگاکر بندے مارنے یااُٹھانے کااجازت نامہ تھمادیاجاے گا تو اقبال چانڈیہ اورراؤ انوار پیداہوتے رہیں گےجبکہ نقیب اور خلیل ظلم کانشانہ بنتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کواختیارات دینے ہیں تو اُنھیں آئین کاپابند بنایا جاے اور انسانیت بھی سکھائی جاے ۔ فوجی عدالتوں کی مُدت میں مزید توسیع اس شرط کے ساتھ دی جاے کہ ماوراے عدالت قتل کی روایت ختم کی جاے گی ۔ساتھ ہی عام عدالتی نظام کو بہتر کرنے کے لیے بھی سنجیدگی سے کام کیاجاے تاکہ ایک ریاست میں دومتوازی نظام چلانے کی بجاے ایک ہی مُستحکم نظام آزادی سے کام کرے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے