دہلیز کے اس پار

یوں تو مشرق میں بیٹے کو رحمت اور بیٹی کو نعمت کہا جاتا ہے اور بظاہر دونوں ہی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت والدین کی اکثریت آج بھی اولاد نرینہ یعنی بیٹے کی پیدائش کی آرزو مند دکھائی دیتی ہے۔

سسرال کی جانب سے بیٹوں ہی کو جنم دینے کا غیر فطری مطالبہ اور ناقابل فہم دباؤ سہتی، نجانے کتنی بے بس مائیں مستقل اداسی اور کرب کی کیفیت میں سسکتے کڑھتے، آخرکار پیچیدہ ذہنی امراض کی دلدل میں اتر جاتی ہیں۔ بیٹوں کی آس پر مسلسل بیٹیوں کی ان چاہی ولادت اور ناقص یا کم خوراک، ماؤں کو لاغر و ناتواں کرتی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ مائیں بھی ہیں جو دوران زچگی ناکافی طبی سہولیات کی بنا پر یا دور افتادہ دیہات میں کسی ماہر دایہ کی معاونت کے بغیر، اپنے گھروں میں ہی ایک نئی زندگی کو دنیا میں لاتے ہوئے، خود موت کی تاریک گھاٹیوں میں اتر جاتی ہیں۔

اوپر تلے دو، چار بیٹوں کے حصول کے بعد اگر قرعہ فال بیٹی کے نام نکل آئے تب اس کی قبولیت کے امکانات قدرے روشن ہوتے ہیں۔ لیکن ترقی کی جانب سر پٹ بھاگتی اس جنوب ایشیائی دنیا میں ایسے لا تعداد گھرانے آج بھی موجود ہیں جہاں بچیاں غربت کی بنیاد پر نہیں دانستہ اچھی خوراک سے محروم رکھی جاتی ہیں اور دستر خوان پر مردوں اور لڑکوں کو پہلے بٹھا کر ترجیحاً بہتر کھانا کھلایا جاتا ہے کہ وہ کمائی کرنے والے شمار ہوتے ہیں۔

قدیم لوک داستانوں، اساطیری ادب حتیٰ کہ نانیوں، دادیوں کے قصوں تک میں مرکزی کردار کوئی بادشاہ اور شہزادہ ہی ہوا کرتا تھا۔ کہانی کا مرکزی خیال انہی کی بہادری، جنگجوئی، عدل اور ذہانت کے گرد گھومتا چلا آیا ہے۔ رہی شہزادی تو اس کے ظاہری حسن و جمال اور کہیں کہیں جذبہ رحم دلی یا سخاوت کے سوا کوئی اور خوبی قابل ذکر نہیں دکھائی دیتی۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ شہزادی کی خوب صورتی کی تعریف بھی بادشاہ حضور کی دل جوئی اور تفریح طبع کے ذیل میں یا صرف زیب داستان کی خاطر کی جا رہی ہو۔

ماہرین عمرانیات و سماجیات، مرد پر ایسے حتمی اور کلی انحصار کو عام طور پر کسی تہذیب اور معاشرتی گروہ کی عسکری ضروریات ، سیاسی مصلحت اور معاشی ترقی سے جوڑتے ہیں۔ عورت کو لشکراور سپاہیوں کی تعداد بڑھانے کا بنیادی ذریعہ بنائے جانے سے لے کر اسے کم زوری اور کم فہمی کے مترادف سمجھا جانا وہ ازلی بد نصیبیاں ہیں جو بنت حوا کی جھولی میں زبردستی ڈالی جاتی رہیں۔ عورت پیکر جلال و جمال کے طور پر مرد کی نگاہ شوق کا محور بننے میں تو پیچھے نہیں رہی لیکن جہاں بھی معاشرتی رتبے اور وقار یا خاندان کی سطح پر قدر و منزلت کی بات آتی ہے تو راوی اکثر ہکلاتے ہوئے خاموش ہو جاتا ہے۔

کہنے کو گاڑی کے دونوں پہیے برابر، لیکن گھرانے میں فیصلہ سازی کا اختیار مشرقی عورت کی دسترس سے آج بھی باہر ہے۔ پسماندہ اور خوفزدہ رکھی گئی زیادہ تر خواتین اول تو کھل کر اظہار رائے نہیں کر پاتیں یا پھر بولنے کی جرأت کر بھی لیں تب بھی ان کی بات سنی ان سنی ہو جاتی ہے اور پذیرائی کے ترازو پر عورت کے الفاظ اپنا زیادہ وزن ثابت نہیں کر پاتے۔ ہاں شاذ و نادر کوئی بھلا مانس مشورے میں شریک کر لے تو وہ یقیناً اس کی بڑائی اوراعلیٰ ظرفی ہے۔

تیز رفتار معاشی ترقی اور دیگر عوامل کی بنیاد پر مسلسل سکڑتی اور قریب آتی دنیا میں تعلیم رفتہ رفتہ ایسے عام ہوئی کہ اب مرد اورعورت دونوں کا بنیادی انسانی حق سمجھی جانے لگی ہے۔

فرسودہ روایات کی تاریکی اور رسوماتی گھٹن میں تعلیم ہی وہ دریچہ ثابت ہوئی جس نے صنف نازک کو گھر کی دہلیز کے باہر ایک روشن جہان کی وسعتوں سے پہلی بار روشناس کرایا۔ بھلا ہو سرکاری وغیر سرکاری اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی فراوانی کا کہ صنف نازک محصور صحن سے گلی اور مکتب کے سفر میں اپنی ذات کی گرہیں کھولتی چلی گئی۔

تاہم، ہزار جتن اور منت سماجت کے بعد دہلیز پار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد اس کے تن من میں یہ دھڑکا اور خوف بھی جا گزیں رہتا ہے کہ کسی اور کے کیے کی سزا کہیں اسے نہ بھگتنا پڑ جائے کہ اس کے ارد گرد تو تا حال ظالم کا ہاتھ روکنے کی بجائے مظلوم کو ہی طعنہ دینے اور سزاوار ٹھہرانے کا چلن عام ہے۔ اسکی کامیابی مشکوک اور جستجو کا پر کشش راستہ اس وقت خار زار بن جاتا ہے جب کوئی پیچھا کرتا اجنبی سایہ یا کوئی اخلاق سے گرا آوازہ نوکیلا پتھر بن کر اس کی تمناؤں کے شیسش محل کو کرچی کرچی کر جاتا ہے۔ وہ ہر روز اپنے نازک ہاتھوں سے ارادوں کی بکھرتی ریت سمیٹ کرامیدوں کے گھروندے تعمیر کرتی ہے اور اگلی صبح زمانے کے سرد و گرم سے بے پرواہ ہو کر پھرسے نئےعزم اور حوصلے کے ساتھ اپنے گھر کی دہلیز سے باہر نکلتی ہے۔

نرم خو تتلیوں کے پیچھے بھاگتی، خاموش گڑیوں سے دل بہلاتی چلی آئی، سراپا محبت اس عورت کے لیے گھر سے باہرکا دشوار سفر بہت سہل ہوجائے اگر کوئی غیر مہذب نگاہ اس کے دامن اعتماد کو تیر کی مانند چھیدتی نہ گزرے کوئی ذومعنی جملہ، کوئی نا زیبا آوازہ اس کے اپنی دھن میں مگن اٹھتے پرعزم قدموں کا آبلہ نہ بنے۔ وہ اس یقین دہانی کی حقدار ہے کہ وہ ہر پل ہر جگہ محفوظ اور محترم ہے۔ اس حوا زادی کو ابن آدم سے تعاون درکار ہے، تصادم تو اس کی فطرت ہی نہیں۔ وہ تو بس چلنے کو اپنے حصے کی صاف سیدھی رہگذر مانگتی ہے۔ اس کی ستارہ سی جھلملاتی آنکھیں، وقار اور برابری کے سپنوں کی تعبیر کی متلاشی ہیں ، حسرتوں اور مجبوریوں کی کوکھ سے نکلےآنسو اب ان کا مقدر نہیں۔ اس لیے کہ آج کی عورت پورے قد سے کھڑی اپنا رستہ، اپنی منزل پہچانتی ہے۔ وہ مواقع میسر آتے ہی اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کی بنیاد پر خود کو ہر میدان، ہرافق پر منوا رہی ہے۔ اسے یہ بھی بہ خوبی معلوم ہے کہ اسے تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے تصویر کائنات میں کس حیثیت سے کیسا رنگ بھرنا ہے۔

وہ جو کبھی کسی آنگن کی بن مانگی، بے طلب نعمت ہوا کرتی تھی، وہ جس کے حصے میں کبھی لقمہ تر نہ آیا، نجانے کتنی صعوبتیں سہہ کر، تپتے صحراوں میں کھدی قبروں سے سر خرو گزری ہے۔ آج علم و عمل کی شاداب وادیوں کے خواب اور اونچی اڑان کے ان گنت ارمان اپنے معصوم دل میں سمیٹے قدم بہ قدم آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے، بلا شبہ وہ معاشرے کی معمار و محسن ہے، وہ امن و خوش حالی کی سفیر ہے، وہی تو دہلیز کے اندر اوراس پار، روشنی اور خوشبو کی پیامبر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے