محی الدین دنیا کے ان اربوں لوگوں میں شامل ہے جو دن ایک سے دو بجے کے درمیان سست ہو جاتے ہیں‘ جن پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے اورجنہیں جہاں سر ٹکانے کا موقع ملتا ہے یہ اپنا سر وہاں ایڈجسٹ کر کے خراٹے لینے لگتے ہیں‘ محی الدین بھی قیلولہ کا عادی ہے‘ اس نے یہ عادت اپنے والد سے حاصل کی اور یہ دفتر کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ایکٹو اور زیادہ کارآمد ہے‘ لوگ اس کے کام کی تعریف کرتے ہیں‘ محی الدین اس کا سارا کریڈٹ قیلولہ کو دیتا ہے۔
ہمارے لیے شاید یہ خبر انکشاف ہو 1950 کی دہائی تک پوری دنیا میں قیلولہ کیا جاتا تھا‘ اسپین‘ اٹلی اور فرانس میں 1990 کی دہائی تک قیلولہ ہوتا تھا‘ لاطینی امریکا کے 20 ملکوں میں آج بھی لوگ دوپہر کے وقت سستاتے ہیں‘ قیلولہ اس زمانے میں انسان کی مجبوری تھا‘ کیوں؟ اس کا جواب سائنس نے 1960 کی دہائی میں تلاش کیا‘انسانی رویوں کے ماہرین کے مطابق سرخ خون والے جاندار آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتے‘ یہ جوں ہی آٹھ گھنٹے کی معیاد پوری کر لیتے ہیں ان کے جسم تھک جاتے ہیں‘اس کے بعد ان کے دل‘ دماغ‘ پھیپھڑوں‘ گردوں اور ہڈیوں کو آرام درکار ہوتا ہے۔
ہمارے جسم کا ایک کیمیکل ایڈ نوسین تھکاوٹ کے سگنل پیدا کرتا ہے‘ ہم جیسے جیسے تھکاوٹ کا شکار ہوتے جاتے ہیں‘ ہمارا جسم توں توں ایڈنوسین پیدا کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ کیمیکل ہمارے پورے دماغ کو کنٹرول کر لیتا ہے‘ یہ ہمیں کام بند کر کے سستانے کے احکامات جاری کر دیتا ہے اور ہم بیٹھے بیٹھے یا بعض اوقات کھڑے کھڑے سو جاتے ہیں‘ ہم سونے کے اس عمل کو سستانا یا نیپ کہتے ہیں۔
نیپ کے دوران ایڈنوسین تحلیل ہو جاتا ہے اور ہم چارج ہو کر دوبارہ چاک وچوبند ہو جاتے ہیں‘ گرمیوں کے موسم میں قیلولہ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے‘ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا آپ گرمیوں کے موسم میں دن کے وقت سست ہو جاتے ہیں جب کہ سردیوں میں آپ رات تک ایکٹو رہتے ہیں‘ کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ گرمیوں کے دن لمبے ہوتے ہیں‘ آپ گرمیوں میں جس وقت سستانے کا پروگرام بناتے ہیں سردیوں میں اس وقت تک آپ کے سونے کا وقت ہو چکا ہوتا ہے‘ گرمیوں کے چار بجے اور سردیوں کے چار بجے میں بڑا فرق ہوتا ہے چنانچہ ہم لمبے دنوں کی وجہ سے بھی گرمیوں میں قیلولہ کرتے ہیں‘ دوسری وجہ درجہ حرارت ہے۔
گرمی ایڈنوسین کی پیداوار کو بڑھا دیتی ہے‘ ہم جلدی تھک جاتے ہیں اور ہمیں قیلولہ کی ضرورت پڑ جاتی ہے‘ ان دونوں وجوہات کی بنا پر 1950 کی دہائی تک قیلولہ ہماری سماجی زندگی کا حصہ تھا‘ سرکاری دفتروں میں صاحب کے کمرے کے پیچھے آرام کا کمرہ ہوتا تھا‘ افسر لنچ کے بعد سستانے کے لیے وہاں چلے جاتے تھے جب کہ عملہ لنچ بریک کے دوران درختوں کے نیچے سو جاتا تھا یا پھر برآمدوں‘ چرچ اور مسجد میں پناہ لے لیتا تھا اور اگر سرکاری کوارٹر قریب ہوتے تھے تو لوگ گھر چلے جاتے تھے‘ دکاندار‘ مل مالکان اور تانگے والے بھی کام روک کر دوپہر کو قیلولہ کرتے تھے لہٰذا دنیا کے اکثر شہروں کی دوپہریں ویران ہو جاتی تھیں لیکن پھر ہماری زندگی میں دو نئی چیزیں متعارف ہوئیں اور یہ قیلولہ کی عادت کو نگل گئیں۔
آج دنیا کے 90 فیصد ملکوں میں قیلولہ نہیں کیا جاتا‘ لوگ نو بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرتے ہیں‘ درمیان میں لنچ بریک ضرور ہوتی ہے لیکن اس بریک میں اب قیلولہ شامل نہیں ہوتا‘ وہ دو چیزیں اے سی اور کافی ہیں‘ ائیر کنڈیشنڈ نے دفتروں‘ گھروں‘ ملوں اور دکانوں کا درجہ حرارت کنٹرول کر لیا‘ گرمی کم ہو گئی لہٰذا ایڈنوسین کم پیدا ہونے لگا‘ لوگ زیادہ دیر تک ایکٹو رہنے لگے‘ کافی ایتھوپیا میں دریافت ہوئی‘ ایتھوپیا میں کافا کے نام سے پورا ریجن (صوبہ) ہے‘ جما اس صوبے کا چھوٹا سا شہر ہے‘ کافی یہاں دریافت ہوئی تھی اور ریجن کافا کی وجہ سے اس کا نام کافی رکھا گیا۔
یہ ایتھوپیا سے مکہ پہنچی‘ خانہ کعبہ کے سامنے کافی شاپس کھلیں‘ عرب کافی کو قہوہ کہنے لگے‘ ترکوں نے اسے تجارت بنایا اور یہ تیزی سے پوری دنیا کا مشروب بن گئی‘ یورپ میں 1600 تک کافی پر پابندی تھی‘ پوپ نے اسے مسلمانوں کی سازش قرار دے کر حرام قرار دے رکھا تھا‘231 واںپوپ کلیمنٹ ہشتم لبرل تھا‘ اس نے 1600 میں کافی کی چسکی لی اور اسے حلال قرار دے کر بیچنے اور پینے سے پابندی اٹھا دی یوں کافی یورپ میں متعارف ہوئی اور چار سو سال میں لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گئی۔
جرمن اور برطانوی اتحادیوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کافی کو فوج میں متعارف کرا دیا اور یہ اس کے بعد تیزی سے پھیلنے لگی‘ 1950 کی دہائی میں یہ چھ براعظموں کی سماجی زندگی میں شامل ہو چکی تھی‘ کافی بھی ایڈنوسین کو کنٹرول کرتی ہے چنانچہ یہ بھی انسانوں کو چاک وچوبند کر دیتی ہے‘ اے سی اور کافی دونوں نے مل کر قیلولہ کی عادت ختم کر دی لیکن پھر 1980 کی دہائی میں پتہ چلا قیلولہ ترک کرنے کی وجہ سے انسانوں میں اینگزائٹی‘ ٹینشن اور ڈپریشن جیسے نفسیاتی امراض پیدا ہورہے ہیں‘ لوگ مزاجاً چڑچڑے ہو گئے ہیں۔
چڑچڑے پن پر تحقیق ہوئی تو پتہ چلا یہ ایڈنوسین کے توازن کی خرابی کا نتیجہ ہے‘ یہ نقطہ ایک نئی تحقیق کا آغاز ثابت ہوا‘ 1990 کی دہائی میں کم خوابی کے مریضوں پر تجربات شروع ہوئے‘ لوگوں کے چند گروپوں کو قیلولہ کرایا گیا اور چند کو کافی پلائی گئی‘ یہ دونوں شروع میں ایکٹو ہوئے لیکن پھر کچھ عرصے بعد چڑچڑے پن کا شکار ہو گئے‘ یہ تجربات 2010 کے بعد ایک نئے فیز میں داخل ہو گئے‘ سائنس دانوں نے قیلولہ اور کافی دونوں کو اکٹھا کر دیا‘ یہ مریض کو کافی پلاتے اور سلا دیتے‘ یہ تجربہ آٹھ سال جاری رہا۔
بے شمار گروپوں کو کافی پلائی گئی اور سلایا گیا یہاں تک کہ نیا فارمولہ سامنے آ گیا‘ اس فارمولے کو ’’نیپ چینو ‘‘کا نام دیا گیا‘ سائنس دانوں کے مطابق قیلولہ زیادہ سے زیادہ بیس منٹ کا ہونا چاہیے‘ انسان بیس منٹ بعد گہری نیند میں چلا جاتا ہے اور یوں اس کی اصل نیند خراب ہو جاتی ہے چنانچہ ہم اگر صرف 20 منٹ قیلولہ کریں تو ہم فریش ہو جاتے ہیں‘ کافی کو بھی خون میں تحلیل ہونے اور جسم کو ایکٹو کرنے کے لیے 20 منٹ درکار ہوتے ہیں‘ ہم کافی پینے کے فوراً بعد چاک و چوبند نہیں ہوتے‘ یہ آہستہ آہستہ خون میں شامل ہو کر بیس منٹ میں ہمارے دماغ تک پہنچتی ہے لہٰذا ہم اگر دن میں ایک سے دو بجے کے درمیان کافی کا ایک مگ پئیں اور فوراً قیلولہ کے لیے لیٹ جائیں تو ہم بیس منٹ بعد توانائی کی آخری حد کو چھو رہے ہوں گے۔
ہم اگر اس کو اپنا معمول بنا لیں تو ہم ساٹھ دن میں ٹینشن‘ اینگزائٹی‘ ڈپریشن اور فرسٹریشن جیسے تمام امراض سے بھی جان چھڑا لیں گے اور ہم ایکٹو زندگی بھی گزاریں گے‘ یہ تھیوری جنوری 2019 میں متعارف ہوئی‘ امریکا کی چار ریاستوں کے دفاتر میں تجربہ کیا گیا اور نتائج شاندار نکلے‘ انسانی رویوں کے ماہرین کا خیال ہے یہ تصور پانچ برسوں میں پوری دنیا تک پھیل جائے گا اور لوگ نیپ چینو کے بھی اسی طرح عادی ہو جائیں گے جس طرح یہ آئس کریم‘ چائے اور جینز کے عادی ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں‘ ہم چائے یا کافی پیتے ہیں تو پھر ہمیں نیند نہیں آتی‘ یہ شکایت بڑی حد تک درست ہے‘ یہ لوگ دراصل ایک تکنیکی غلطی کرتے ہیں‘ یہ چائے اور کافی پینے کے بعد گپ لگانا شروع کر دیتے ہیں اور یوں بیس منٹ گزر جاتے ہیں اور کافی اور چائے خون میں شامل ہو کر ایڈنوسین کو ختم کر دیتی ہے‘ انسان ایکٹو ہو جاتا ہے اور نیند اڑ جاتی ہے۔
ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے ہم رات کو چائے یا کافی نہ پئیں اور اگر پئیں تو فوراً سو جائیں‘ نیند کا ایشو پیدا نہیں ہو گا‘ میں نے چند برس قبل اٹلی سے کافی کا ایک چھوٹا سا کورس کیا تھا‘ مجھے اس کورس میں پتہ چلا کافی پینے کا بہترین وقت صبح ساڑھے نو بجے سے ساڑھے گیارہ بجے کے درمیان ہوتا ہے‘ ہماری جسمانی توانائی کاگراف اس وقت ڈائون ہوتا ہے‘ کافی اس گراف کو سپورٹ دیتی ہے اور ہماری توانائی بڑھ جاتی ہے‘ دوسرا بہترین وقت شام چار سے چھ بجے کے درمیان ہے۔
ہم اس وقت بھی ڈائون محسوس کرتے ہیں‘ اس کی وجہ ہوا میں آکسیجن کی کمی‘ پالوشن کی مقدار میں اضافہ اور ہماری جسمانی تھکاوٹ ہوتی ہے‘ ہم اگر اس وقت چائے یا کافی کے ایک دو کپ لے لیں تو ہم فریش ہو جاتے ہیں‘ آپ اگر چائے یا کافی غسل کے بعد پئیں تو آپ زیادہ اچھا فیل کریں گے اور اب نئی تحقیق کے بعد نیپ چینو جسمانی توانائی برقرار رکھنے کا زیادہ اچھا طریقہ ہے۔
آپ اگر صبح جلدی جاگتے ہیں تو آپ ڈیڑھ بجے کافی پئیں‘ بیس منٹ کے لیے سو جائیں اور دو بجے دوبارہ کام شروع کر دیں‘ آپ کا دن بھی اچھا گزرے گا اور آپ دوسروں کے مقابلے میں کام بھی زیادہ کریں گے‘ میری ذاتی روٹین میں چائے کافی بہت کم ہے‘ میں دن میں صرف سبز چائے پیتا ہوں‘ دن میں کافی کا صرف ایک کپ لیتا ہوں اور چائے کے دو یا حد تین کپ پیتا ہوں اور اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے مجھے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوا‘ زیادہ چائے یا کافی بھی انسان کو بیمار کرتی ہے۔
آپ اس کو حد سے باہر نہ جانے دیں اور آخری بات آپ کو اگر کافی پسند نہیں تو پھر آپ قیلولہ کو گرین ٹی کے ساتھ بھی ملا سکتے ہیں‘ آپ گرین ٹی پئیں اور بیس منٹ کے لیے سو جائیں‘ آپ کو نیپ چینو جیسے اثرات ملیں گے‘ بہرحال گرین ٹی ہو یا کافی یا پھر پانی کا ایک گلاس لیکن قیلولہ ضروری ہے‘ یہ آپ کی زندگی اور معیار زندگی دونوں کو بہتر بنا دے گا ورنہ آپ ٹینشن کا شکار ہو جائیں گے بالکل اس کہانی کے کردار محی الدین کی طرح‘ محی الدین نے بھی جب قیلولہ ترک کیاتویہ بیمار ہوگیا‘ اس کا کام ڈسٹرب ہو گیا‘ یہ اب گرین ٹی پیتا ہے‘ بیس منٹ کا قیلولہ کرتا ہے اور ایک خوشگوار زندگی گزارتا ہے۔