اس پارے میں دو حصے ہیں:
1۔بقیہ سورۂ بقرہ
2۔ابتدائے سورۂ آل عمران
(پہلا حصہ) سورۂ بقرہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:
۱۔دو بڑی آیتیں ۲۔دو نبیوں کا ذکر ۳۔صدقہ اور سود
۱۔ دو بڑی آیتیں:
ایک ”آیت الکرسی“ ہے جو فضیلت میں سب سے بڑی ہے، اس میں سترہ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
دوسری ”آیتِ مداینہ“ جو مقدار میں سب سے بڑی ہے اس میں تجارت اور قرض مذکور ہے۔
۲۔ دو نبیوں کا ذکر:
ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مباحثہ اور احیائے موتٰی کے مشاہدے کی دعاء۔
دوسرے عزیر علیہ السلام جنھیں اللہ تعالیٰ نے سوسال تک موت دے کر پھر زندہ کیا۔
۳۔ صدقہ اور سود:
بظاہر صدقے سے مال کم ہوتا ہے اور سود سے بڑھتا ہے، مگر در حقیقت صدقے سے بڑھتا ہے اور سود سے گھٹتا ہے۔
(دوسرا حصہ) سورۂ آل عمران کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:
1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت
2۔اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے
3۔اہل کتاب سے مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ
4۔ انبیائے سابقین سے عہد
1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت
مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں قرآن کی حقانیت اور اہل کتاب سے خطاب ہے۔ سورۂ بقرہ میں اکثر خطاب یہود سے ہے جبکہ آل عمران میں اکثر روئے سخن نصاری کی طرف ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے:
پہلا قصہ جنگ بدر کا ہے، تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو شکست دے دی۔
دوسرا قصہ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس بے موسم پھل کے پائے جانے کا ہے۔
تیسرا قصہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہونے کا ہے۔
چوتھا قصہ حضرت عیسی علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونے، بچپن میں بولنے اور زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا ہے۔
3۔ مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ:
اہل کتاب سے مناظرہ ہوا، پھر مباہلہ ہوا کہ تم اپنے اہل و عیال کو لاؤ، میں اپنے اہل و عیال کو لاتا ہوں، پھر مل کر خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کہ لعنت ہو، وہ تیار نہ ہوئے تو پھر مفاہمہ ہوا، یعنی ایسی بات کی دعوت دی گئی جو سب کو تسلیم ہو اور وہ ہے کلمۂ ”لا الہ الا اللہ“۔
4۔ انبیائے سابقین سے عہد:
انبیائے سابقین سے عہد لیا گیا کہ جب آخری نبی آئے تو تم اس کی بات مانو گے، اس پر ایمان لاؤ گے اور اگر تمھارے بعد آئے تو تمھاری امتیں اس پر ایمان لائیں۔