دسویں پارے کے شروع میں کفار پر غلبے کی صورت میں حاصل شدہ مالِ غنیمت کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوں گے اور پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور(رسول کے )قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے‘ یعنی یہ اللہ کے رسول کی صوابدید پر ہوگا ۔ آیت 42میں بتایا کہ میدانِ بدر میں مسلمان مجاہدین کی زمینی پوزیشن کفار کے مقابلے میں بظاہر کمزور تھی‘ جس کی وجہ سے مسلمانوںکے دلوں میں خدشات پیدا ہوتے تھے‘ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :(یہ اس لئے ہوا ) کہ اللہ اپنے طے شدہ فیصلے کو نافذ کردے‘یعنی ظاہری کمزوری کے باوجود مسلمانوںکا غلبہ اور فتح مقدر کردے اور اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرما دیتا ہے ‘ وہ نافذ ہو کر رہتاہے۔ آیت 54 میں بتایا کہ آلِ فرعون اور پچھلی امتیں آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے کے جرم میں ہلاک کردی گئیں ۔ آیت60میں فرمایا کہ دشمن کے مقابلے میں اپنی پوری دستیاب قوت اور اسباب کے ساتھ تیار رہو‘ اس کے ذریعے تم اﷲاور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو گے۔
آیت 63 میں بتایا کہ اﷲنے اپنے کرم سے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کردو تو یہ باہمی الفت تمہارے اندر پیدا نہ ہوتی اور فرمایا اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور آپ کے تابع فرمان مومنوں کی جماعت کافی ہے۔ آیت 65سے نبی کریم ﷺ کو حکم ہوا کہ مومنوں کو جہاد پر ابھارئیے ‘ اﷲتعالیٰ تمہیں اپنے سے دس گنا تعداد پر مشتمل کافروں پر فتح عطا فرمائے گا‘ پھر بعد میں جب مسلمانوں میں کمزوری آئی تو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دشمنوں کی دگنی تعداد پر فتح عطا فرمائے گا۔ آیت 72 میں بتایا کہ جان ومال سے اﷲکی راہ میں جہاد کرنے والے مومنین مہاجرین اور انصار صحابۂ کرام ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
[pullquote]التوبہ[/pullquote]
سورۂ انفال اور سورۂ توبہ کے مضامین چونکہ باہم مربوط ہیں ‘ اس لئے ان دونوں کے درمیان فـصل کیلئے بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اس سورت کی پہلی آیت میں مشرکینِ عرب سے برأت کا اعلان کرتے ہوئے انہیں مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے یا اسلام قبول کرنے کیلئے چار مہینے کا ٹائم دیااور جن کفار کے ساتھ مسلمانوں کا پہلے سے کوئی معاہد ہ ہے ‘ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد بھی نہیں کی ‘ تو مقررہ مدت تک مسلمان یک طرفہ طور پرمعاہدے کو نہ توڑیں ‘ پھر فرمایا کہ چار مہینے کا نوٹس پیریڈگزرنے کے بعدمسلمان مشرکینِ عرب کے خلاف Crackdown کریں ‘ ان کا مکمل محاصرہ کریں اور وہ جہاں بھی ملیں ‘انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ آیت 8میں بتایا کہ کفار مسلمانوں کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اگراُن کی اَخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر خدانخواستہ غالب آجائیں تو قرابت داری کا بھی پاس نہ کریں۔
آیت 23 میں حکم ہوا کہ تمہارے باپ داد اور بھائیوں میں سے جو کفر کو ایمان پر ترجیح دیں ‘ ان سے تعلق توڑ دو اورکافروں سے دوستی کرنے والا ظالم ہے ۔ آیت 24میں ان تمام چیزوں کا یکے بعد دیگرے ذکر فرمایا‘ جن سے انسان کو فطری اورطبعی طور پر محبت ہوتی ہے‘ یعنی باپ دادا‘اولاد‘ بھائی بہن ‘ بیویاں یا شوہر ‘ کنبہ اور قبیلہ ‘ کمایا ہوا مال اور تجارت‘ جس کے خسارے کا کھٹکا لگا رہتاہے اور پسندیدہ مکانات ‘ ان سب چیزوں کی محبت اپنے اپنے درجے میں مُسلَّم ‘ لیکن اگر یہ سب چیزیں مل کر بھی تمہارے لئے اللہ ‘ اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہوجائیں ‘ (توایمان کا دعویٰ تو دور کی بات ہے)پھر تمہیں اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔ آیت 25 میں غزوۂ حنین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات کثرتِ تعداد پر اترانا اور نازاں ہونابھی شکست کا باعث بن جاتا ہے ‘ یہی مسلمانوں کے ساتھ غزوۂ حنین میں ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر قلبی سکون نازل کیا اور غیبی لشکروں سے ان کی مدد فرمائی ۔
آیت30 میں بتایا کہ یہود نے عزیر کو اللہ کا بیٹا کہا اور نصاریٰ نے مسیح کو اللہ کا بیٹا کہا ‘ مگر یہ سب ان کی خود ساختہ باتیں ہیں ‘ ان پر اللہ کی مار ہے۔ مزید فرمایا کہ نصاریٰ نے اپنے علماء اور راہبوں کو خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی؛ حالانکہ انہیں وحدہٗ لاشریک اﷲکی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ آگے چل کر فرمایا کہ منکراپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں ‘ مگر اللہ ان کی خواہش کے برعکس اس نور کو مکمل فرمائے گااور اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجاہے ‘تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔
آیت34 میں سونا اور چاندی (یعنی دنیاوی دولت ) ذخیرہ کرنے والوں اور راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور پھر بتایا کہ قیامت کے دن ان کے اپنے جمع کئے ہوئے مال کو نارِ جہنم میں تپا کر اُس سے اُن کی پیشانیوں ‘ پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا‘ کہ اپنے ہی جمع کئے ہوئے مال کا مزہ چکھو ۔آیت 36میں بتایا کہ ابتدائے آفرینش سے اللہ کی کتابِ تقدیر میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ‘اُن میں سے چار(ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ ‘ محرم اوررجب المُرجب) حرمت والے ہیں‘ان مہینوں میں جنگ کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ کفارِ مکہ جب ان مہینوں میںجنگ کرنا چاہتے‘ تو ان کی ترتیب میں رَدّوبدل کردیتے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مہینوں کو مؤخر کرنا کفر میں زیادتی ہے ۔
آیت40میں سفرِ ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقتِ خاص کو ایک شانِ امتیازی کے ساتھ بتایا اور اس آیت میں چھ مرتبہ مختلف انداز میں سیدنا صدیق اکبر کا ذکر ہوا ‘ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمۂ کفر کو پست رکھا اور اللہ کا دین ہی سربلند ہے۔ آگے فرمایا کہ جب جہاد کے لئے عام لام بندی کا حکم ہوجائے ‘ تو پھر جس حال میں بھی ہو تمام وسائل کے ساتھ جہاد میں شریک ہوجاؤ‘ پھر فرمایا کہ منافقین قسمیں کھا کھا کر اور طرح طرح کے بہانے بنا کرجہاد سے پہلو تہی اختیار کریں گے‘ جبکہ سچے مومن دل وجان سے جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوں گے ۔ مزید فرمایا کہ جہاد سے پہلو تہی اختیار کرنے والے وہی لوگ ہیں‘ جن کا اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں اور جن کے دلوں میں شک کی بیماری ہے ‘ ایسے تشکیک کے مارے جنگ میںشامل بھی ہوجائیں ‘تو فساد کا باعث بنتے ہیں اورمجاہدین کی صفوں میں فتنے اور سازشیں کرتے ہیں اور یہ لوگ پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ”اے رسول! کہہ دیجئے کہ ہمیں ہر گز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی ‘ سوائے اس کے‘ جو اللہ نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے‘‘۔
آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے صدقاتِ واجبہ اور زکوٰۃ کے مصارف(مستحقین) کو قطعیت کے ساتھ بیان کیا ‘ جو یہ ہیں: فقراء ‘ مساکین ‘ عاملین ِ زکوٰۃ‘ مؤلَّفَۃُ القلوب‘ غلامی سے گردن کو آزاد کرنا‘ جو قرض کے بار تلے دبے ہوئے ہوں‘ فی سبیل اللہ (یعنی جنہوں نے اپنے آپ کو کل وقتی طور پر اللہ کے دین کی کسی خدمت کے لئے وقف کررکھا ہو) اور مسافر۔آیت61 میں فرمایا کہ بعض منافق اﷲکے نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کانوں کے کچے ہیں‘جبکہ نبی ﷺ کا تمام لوگوں کی بات سننا مومنین کیلئے باعثِ رحمت ہے اور جو لوگ رسول کریم ﷺ کو ایذا پہنچاتے ہیں ‘ ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ‘
فرمایا ”منافق جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کا یقین دلاتے ہیں ؛ اگر وہ سچے مومن ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے‘‘۔ آیت 67میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافق مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں ‘ وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور خیر کے کاموں سے اپنا ہاتھ روکے رکھتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا کہ مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں ‘ برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔آیت 73سے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ یہ کلمۂ کفر کہتے ہیں اور پھر قسمیں کھا کر منکر ہوجاتے ہیں۔
آیت 75میں فرمایا کہ بعض منافق وہ ہیں ‘ جو اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں عطا کیا ‘تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور نیکوکاروں میں سے ہوجائیں گے۔ پس‘ جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں مال عطا کیا ‘توا نہوں نے بخل کیا اور رُوگردانی کی۔ آیت 78میں اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ اللہ دلوں کے رازوں اور سرگوشیوں کو بھی جانتاہے اور وہ غیبی باتوں کو بہت زیادہ جاننے والا ہے ۔ آیت 79میں منافقوں کا ایک شِعار یہ بتایا کہ نادار مومنین جب اپنی محنت کی کمائی سے تھوڑا سا مال صدقہ کرتے ہیں ‘ تو یہ منافق ان پر طَعن کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں ‘ (اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ) اللہ ان کو ان کے مذاق کی سزا دے گا۔
سورۂ توبہ کی آیات میں منافقین کی مسلسل مذمت فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں ‘ بیماروں اور ناداروں کو عذر کی بنا پر رخصت عطا فرمائی ہے اور ایسے مجاہدین کو بھی جو خود جہاد کیلئے اپنے مصارف برداشت نہ کرسکتے ہوں اور رسول کریمﷺ کے پاس بھی ان کی سواری اور زادِ راہ کا سامان نہ ہو؛البتہ جو لوگ صحت مند ہونے اور مالی وسائل رکھنے کے باوجود جہاد سے پہلو تہی اختیار کرنا چاہیں‘ تو وہ قابلِ مذمت ہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔