نیویارک: کینسر کے مرض میں جینیاتی اور سالماتی سطح پر تبدیلیاں (میوٹیشن) پیدا ہوتی ہیں اور ہر کینسر کی نوعیت دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہے۔ اسی بنا پر پھل مکھی (ڈروزیفیلا) میں انسانی کینسرکی تفصیلات شامل کرکے انہیں مریض کی کاپی یا ’کینسر اوتار‘ بناکر علاج کرنے کی انوکھی تجویز سامنے آئی ہے۔
پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ مکھی میں عین ویسی ہی جینیاتی تبدیلیاں پیدا کردی جائیں جو کینسر کے مریض میں ہوتی ہیں۔ یہ چھوٹی مکھیاں تھوڑے عرصے تک زندہ رہتی ہیں اور تجربہ گاہوں میں ان کی بڑی تعداد کو تیار کرکے ایک وقت میں ان پر درجنوں بلکہ سینکڑوں ادویہ آزمائی جاسکتی ہیں۔
اس کے لیے ماہرین نے ایک دلچسپ تجربہ بھی کیا۔ اس میں آنتوں کے پیچیدہ ترین کینسر میں مبتلا ایک ایسے مریض پر تحقیق کی گئی جو تین سال جیتا رہا جو ایک ریکارڈ مدت ہے۔ نیویارک میں ماؤنٹ سینائی ہسپتال کے ڈاکٹر روس کیگن اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ کینسر مریض کے جسم میں پھیل چکا تھا اور کئی دواؤں کو ناکام بنارہا تھا۔
اس مریض کے جینیاتی تجزیئے سے معلوم ہوا کہ سرطانی رسولیوں میں 9 مختلف سرطانی تبدیلیاں ہیں ۔ اس کے بعد ڈاکٹروں نے سینکڑوں مکھیوں کو عین انہی نو تبدیلیوں سے گزارا اورایک خاص روبوٹ سسٹم کے ذریعے مکھیوں پر 121 دوائیں آزمائیں۔ بعض مواقع پر ایک سے زائد دوائیں بھی دی گئیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک موقع پر دواؤں کے مجموعے نے کینسر کی افزانش سست کردی اور مکھیاں زیادہ عرصے زندہ رہیں۔ اس میں کینسر کی ایک مشہور دوا ٹرامیٹینب اور گٹھیا کے ایک مرض میں استعمال ہونے والی دوا زولڈرونیٹ کا مجموعہ تھا۔ ماہرین نے دوا کا یہ مجموعہ اس مریض کو دیا اور وہ مریض زیادہ دن زندہ رہا۔
اس موقع پر ڈاکٹر روس نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ کس طرح کی جینیاتی تبدیلیاں کونسا کینسر بنارہی ہیں اور اس ضمن میں مکھیوں کو عین وہی کیفیات دے کر ان پر لاتعداد دوائیں آزمائی جاسکتی ہیں۔ اسطرح پھل مکھیاں کینسر سے علاج اور دواؤں کے لیے ایک بہترین امیدوار بن سکتی ہیں۔
تاہم جس شخص کا علاج کیا گیا اس پر بھی دواؤں کا اثر 11 ماہ بعد ختم ہوگیا ۔ ماہرین نے دوبارہ اس مریض کے ڈی این اے کا جائزہ لیا لیکن اس بار وہ اس جینیاتی تبدیلی کو بھانپ نہیں سکے۔ تاہم مزید تحقیقات سے مکھیوں کے ماڈل کو بہتر بناکر کینسر کے علاج کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔