انیسویں پارے کے شروع میں ایک بار پھر کفارِ مکہ کے ناروا مطالبات کا ذکر ہے کہ منکرینِ آخرت یہ مطالبہ کرتے تھے کہ ہمارے پاس فرشتہ اتر کر آئے یا ہم اﷲتعالیٰ کو کھلے عام دیکھیں ۔ قرآن نے بتایا کہ جس دن کفار ان نشانیوں کو دیکھ لیں گے تو وہ ان کے لئے بہت برا دن ہو گا۔ قیامت کے دن کفار ندامت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ کاش دنیا میں ہم نے رسولوں سے تعلق رکھا ہوتا ۔
آیت 32میں کفار کے اس اعتراض کا ذکر ہوا کہ پورا قرآن ایک ہی وقت میں نازل کیوں نہ کیا گیا، قرآن نے بتایا کہ تدریجی نزول میں حکمت یہ ہے کہ وحی کے تسلسل کے ذریعے نبی ﷺ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رہے اور آپ کے دل کو قرار وسکون نصیب ہو۔ آیت 45سے اللہ تعالیٰ نے سائے کے پھیلاؤ اور سمٹاؤ کو اپنی نشانی قرار دیا ۔
آیت 48سے بارش کے نظام ، آسمان سے پاک پانی کے نزول، اس کے ذریعے بنجر زمین کو زرخیز بنانے ، سمندروں میں میٹھے اور نمکین پانی کے الگ الگ جاری ہونے اور دیگر انعامات کا ذکر ہے۔آیت 54میں بتایا کہ انسان کا جوہرِ تخلیق پانی ہے اور پھر اس کے ذریعے نسب اور سسرال کے رشتے قائم ہوئے ۔ سورۂ فرقان کے آخری رکوع میں آسمانوں میں برج بنانے ، سورج اور چاند کی روشنی اور نظامِ لیل ونہار کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل بتایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی اعلیٰ صفات کا ذکر ہے ، جو یہ ہیں : زمین پر شرافت اور متانت سے چلنا ، راتوں کو سجدہ وقیام یعنی اللہ کی عبادت میں گزارنا ،عذابِ جہنم سے اللہ کی پناہ چاہنا، مال خرچ کرتے وقت بُخل اور اسراف کی دو انتہاؤں کے درمیان توازن واعتدال سے کام لینا، شرک، قتلِ ناحق ، زنا ، جھوٹی گواہی‘ بیہودہ مجالس سے اجتناب ،اللہ کی آیات یاد دلانے پر اندھا ، بہر ا نہ بننے یعنی نصیحت قبول کرنے اور اﷲتعالیٰ سے نیک اور صالح اولاد کی دعاکرنا۔ اس میں گناہگاروں کے لئے نہ صرف توبہ کی قبولیت کی نوید ہے بلکہ گناہوں کے بدلے میں نیکیاں عطا کرنے کی بشارت اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کئے جانے کا ذکر ہے ۔
[pullquote]شعراء[/pullquote]
اس سورت میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جا کر دعوتِ حق دینے کا حکم دیا ۔ بشری تقاضے کے تحت موسیٰ علیہ السلام کے خدشات کا ذکر ہے ، فرعون کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کا احسان جتانے کا ذکر ہے۔ فرعون نے دعوتِ توحید کے جواب میں کہا کہ ”رب العالمین ‘‘ کون ہے؟، انہوں نے فرمایا کہ وہ آسمانوں اور زمینوں ، مشرق ومغرب اور تمہارا اور تمہارے پہلے آبائواجداد کا رب ہے ۔ اس مقام پر بھی ایک بار پھر جادوگروں کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزات (خاص طور پر عصا کا اژدھا بننا) کے غالب آنے کا ذکر ہے، پھر جادو گروں کے ایمان لانے اور فرعون کی طرف سے قید میں ڈالنے ، ہاتھ پاؤں کو مخالف سمت سے کاٹنے اور سولی چڑھانے کی دھمکیوں کا ذکر ہے۔پھر اس بات کا بیان ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر گئے ، سامنے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کے پیروکاروں کا تعاقب ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کی ضرب سے سمندر پھٹ گیا ، بنی اسرائیل کے لئے راستہ بنا ، وہ سلامتی کے ساتھ سمندر پار چلے گئے اور فرعون اپنے لاؤلشکر سمیت سمندر میں غرق ہوگیا۔
آیت 69سے ایک بار پھر ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ اپنی قوم کو بتوں کی بے بسی کی جانب متوجہ کرتے ، پھر ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اللہ نے مجھے پیدا کیا ، وہی ہدایت دیتا ہے ، وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ، جب بیمار ہوتاہوں تو شفا دیتا ہے ، وہی میری روح قبض کرے گا اور آخرت میں دوبارہ پیدا کرے گا، مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔ وہ دعاکرتے ہیں : اے پروردگار! تومجھے صحیح فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرما اور مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے، اے اللہ! بعد میں آنے والے لوگوں میں میرا ذکرِ خیر سچائی کے ساتھ جاری فرما ، مجھے جنت کی نعمتوں کا وارث بنا اور مجھے قیامت کے دن رسوا نہ فرمانا ۔آیت 105سے نوح علیہ السلام کی دعوتِ حق کا ذکر ہے ۔ وہ رسولِ امین تھے ، سرکش لوگوں نے کہا ہم آپ پر کیسے ایمان لائیں ، آپ کے پیروکار تو پسماندہ لوگ ہیں، پھر نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی قوم کے درمیان آخری فیصلے کی دعا مانگتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے پیروکار مومنوں کو کشتی کے ذریعے نجات عطا فرماتا ہے اور سرکش قوم طوفان میں ڈوب جاتی ہے۔
آیت 124سے ہود علیہ السلام اور ان کی قوم عاد کا ذکر ہے ، نبی کی تکذیب کی بنا پر اس قوم کو ہلاک کردیا گیا ۔آیت 141سے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی قوم ثمود کی نافرمانیوں کا ذکر ہے ، ان پر بھی اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کی فراوانی فرما رکھی تھی، لیکن جب انہوں نے ”ناقۃ اﷲ‘‘ کی بے حرمتی کی اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو ان پر عذاب نازل ہوا۔ آیت 160سے لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے ، اس قوم کی بداعمالیوں کا ذکر ہے کہ وہ حلال بیویوں کو چھوڑ کر غیرفطری طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتے تھے۔ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی ان کی ہم خیال تھی، بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو بھی تباہ وبرباد کردیا۔
پھر حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے ، یہ لوگ ”اصحابُ الایکہ‘‘ کہلاتے ہیں ، یہ لوگ لین دین کے وقت ناپ تول میں ڈنڈی مارتے تھے اور ان کی سرکشی کا عالَم یہ تھا کہ نبی سے کہتے : اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر آسمان کیوں نہیں پھٹ جاتا، پھرا س قوم پر بھی عذاب نازل ہوا اور تباہ وبرباد کردئیے گئے ۔ آیت 192سے بتایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ، جسے واضح عربی زبان میں جبرائیل امین نے محمدرّسول اللہ ﷺ کے قلبِ پاک پر نازل کیا۔ ان آیات میں یہ بھی بتایا کہ جن قوموں کا نام ونشان مٹا دیا گیا ، اللہ تعالیٰ نے اتمامِ حُجت کے لئے ان کے پاس رسول بھیجے۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے غور وفکر کا مقام ہے کہ جن بد اعمالیوں کے سبب پچھلی امتوں کا نام ونشان مٹا دیا گیا، آج وہ سب اخلاقی خرابیاں اس امت میں جمع چکی ہیں، بس صرف اتنی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اس امت پر اس طرح کا عذاب نہیں آئے گا کہ نام ونشان بھی مٹ جائے، ورنہ اخلاقی زوال انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔
[pullquote]النمل[/pullquote]
اس سورت کی ابتدائی آیات میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام کے احوال اور معجزات کا بیان ہے ۔ آیت 16سے سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام کے وارث بنے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ۔ جنات اور انسانوں کے لشکر ایک فوجی ڈسپلن کے ساتھ ان کے پاس حاضر رہتے ۔ پھر اس واقعے کا ذکر ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا گزر چونٹیوں کی وادی پر ہوا تو چونٹیوں کی مَلکہ نے اپنی رعایا سے کہا کہ اپنے بلوں میں گھس جاؤ ، کہیں سلیمان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے ۔ سلیمان علیہ السلام چونکہ جانوروں کی بولیا ں جانتے تھے ، تو یہ سن کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی : اے میرے رب! تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر جو بے پایاں نعمتیں فرمائی ہیں، مجھے ان کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمااور مجھے اپنے پسندیدہ نیک اعمال پر قائم اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیکوکار بندوں میں داخل فرما۔
پھر ہدہد پرندہ جو ان کے لشکر کی رہنمائی کے لئے آگے جاتا تھا ، کافی دیر غائب رہا اور پھر یمن کی ملکۂ سبا کے بارے میں ایک یقینی خبر لے کر آیاکہ ان کا ایک بڑا تخت ہے ، یہ لوگ سورج پرست ہیں اور انہیں ہر طرح کی نعمتیں میسر ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کی طرف ایک خط بھیجا جس کا عنوان یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم ، یہ خط سلیمان کی جانب سے ہے (تمہارے لئے پیغام یہ ہے )کہ سرکشی چھوڑو اور اطاعت گزار بن کر میرے پاس چلے آؤ، ملکۂ سبا نے قوم سے مشورہ کیا ، قوم کو اپنی طاقت پر ناز تھا ۔ ملکۂ سبا نے سلیمان علیہ السلام کو محض ایک دنیا دار بادشاہ سمجھتے ہوئے آپ کے پاس تحفے تحائف بھیجے، سلیمان علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے جو مال دے رکھا ہے، وہ تمہارے مالوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے اور ہدہد سے کہا کہ یہ خط پہنچاؤ ہم ان پر حملہ کریں گے ۔ ملکۂ سبا نے سلیمان علیہ السلام کے سامنے سپر انداز ہونے کا فیصلہ کیا اور چل پڑی ، اس دوران سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے کہا کہ ان کے اطاعت گزار ہوکر آنے سے پہلے یہ تخت میرے پاس کون لائے گا۔
ایک بہت بڑے جن نے کہا : ”میں اِس تخت کو آپ کی مجلس برخاست ہونے سے پہلے لے آؤں گا ، میں امین ہوں اور اس پر قادر ہوں‘‘۔ سلیمان علیہ السلام کے کتابِ الٰہی کے عالم صحابی (ان کا نام مفسرین نے آصف بن برخیا لکھاہے اور یہ اللہ کے ولی تھے)نے کہا: ”میں آپ کے پاس پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو لے آؤں گا‘‘۔ انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو تخت سامنے رکھا ہوا تھا،اِسی وجہ سے کہاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ کے کامل بندے کا کہنا ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”کُن ‘‘ کی بمنزلہ ہوتاہے ۔ سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے اس فضل پر اپنے رب کا شکر ادا کیا اور فرمایا”جواپنے رب کا شکر ادا کرتاہے، اس کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اورجو ناشکری کرتاہے تو میرا رب بے پروا، سب کمالات والا ہے‘‘۔
مفسرین نے اس مقام پر لکھا ہے کہ اللہ کے ولی کی یہ طاقت ہے، تو نبی کی طاقت کا عالَم کیا ہوگا اور پھر امام الانبیاء کی شان کا عالَم کیا ہوگا۔پھر سلیمان علیہ السلام کے حکم سے اس تخت میں کچھ تبدیلی کی گئی کہ آیا مَلکہ اسے پہچان پائے گی یانہیں، مَلکہ نے اسے پہچان لیا۔ پھر پانی کے تالاب پر چکنابلّوری فرش بنایا ، مَلکۂ سبا نے اس پر قدم رکھا اور پانی گمان کرتے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا یا تو سلیمان علیہ السلام نے فرمایاکہ یہ چکنا بلّوری (Crystal & Glace)ہے۔آیت47سے قومِ ثمود کا حضرت صالح علیہ السلام سے بدشگونی لینے کا ذکر ہے۔
آیت 54سے ایک بار پھر لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کی فحاشی اور اس کے نتیجے میں ان کی تباہی وبربادی کا ذکر ہے۔