بائیسویں پارے کے مضامین کیا کیا ہیں اور کن امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.

اِس پارے کے شروع میں ازواجِ مُطہرات سے کہاگیا کہ آپ لوگوں کا مقام امتیازی ہے۔سو‘تقویٰ اختیار کرو ‘غیر محرم مردوں کے ساتھ نرم لہجے میں بات نہ کرو اور ضرورت کے مطابق بات کرو ‘اپنے گھروں پر رہو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح زیب وزینت کی نمائش نہ کرو‘نماز اور زکوٰۃ اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر کاربند رہو اور جو ایساکریں گی تو اُن کو دُہرااجر ملے گا اور اُن کیلئے آخرت میں عزت کی روزی کا اہتمام ہے ۔اسی مقام پر اہلِ بیتِ رسول کے لئے نوید ہے کہ اللہ اُن سے ناپاکی کو دور کرنا چاہتاہے اور اُنہیں خوب پاکیزہ رکھنا چاہتاہے ۔ مُفسرین کے مطابق؛ اس آیتِ تطہیر کا مصداق سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہیں ‘حضرت علی اور حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ساتھ اُمہات المومنین رضی اللہ عنہم بھی ہیں ‘کیونکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم وموسیٰ علیہما السلام کے واقعات میں ”اہل ِ بیت ‘‘ کا بیوی پر بھی اطلاق کیا گیا ہے۔

آیت35میں مومن مردوں اور عورتوں کی مشترکہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ اطاعت شعار ہیں ‘صداقت شعار ہیں ‘پیکرِ صبرورضا ہیں‘‘ اُن کے دل اللہ کے حضور عجزوتواضع کے خوگر ہیں ‘وہ صدقات دینے والے ہیں ‘روزے دار ہیں ‘اپنی حیا اور عزت کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کاکثرت سے ذکر کرنے والے ہیں ‘اِن کے لئے اللہ نے بخشش اور اجرعظیم کی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ۔

آیت37سے یہ مسئلہ بیان ہواکہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کے حکم میں نہیں ہوتا اور اُس کی مُطلقہ بیوی سے نکاح میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی معیوب بات ہے۔ آیت46میں سیدنا محمد رسول ؐ کے ایک عظیم ترین اعزاز کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں آخری نبی ورسول بنایا اور ”خاتم النبیین ‘‘ہونا آپ کے مقامِ فضیلت میں بیان ہوا ۔

آیت 44میں رسول کریمؐ کے امتیازی صفات کا ذکرہے کہ آپ کو شاہد‘ مُبشر (رحمتِ الٰہی کی بشارت دینے والا)‘ نذیر(اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا)‘اِذنِ الٰہی سے دعوتِ حق دینے کا اور ”سراج منیر ‘‘ (روشن کرنے والا آفتاب) بناکر بھیجا ۔آیت53سے آدابِ بارگاہِ نبوت بیان ہوئے کہ اجازت کے بغیر نبی کے گھر میں داخل نہ ہو ‘ دعوتِ طعام ہوتو کھانا کھاکرمنتشر ہوجاؤ ‘ نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو ‘توپردے کے پیچھے سے مانگو ‘نبی کی بیویوں سے آپ کی رحلت کے بعد دائمی طورپر مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہے اور اپنے کسی بھی عمل سے اللہ کے رسول ؐ کو کوئی ایذانہ پہنچاؤ۔ آیت56شانِ رسالت میں عظیم ترین آیت ہے ‘فرمایا: ”بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود پڑھتے ہیں‘اے اہلِ ایمان ! تم بھی اُن پر درود پڑھو اور کثرت سے سلام بھیجو‘‘۔ مُفسّرین نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”صلوٰۃ علی الرسول‘‘ کے کئی معنی بتائے ہیں ‘لیکن جو معنی آپ کے شایانِ شان ہے ‘وہ ہے: ”عظمت عطاکرنا‘‘۔ آیت57 میں بتایا کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ کو ایذا پہنچانے والوں پردنیا اور آخرت میں لعنت ہے۔ اوراللہ نے اُن کے لئے رسواکن عذاب تیار کررکھاہے ۔

آیت 59 میں مومنات خواتین کے لئے پردے کا حکم ہے ‘یعنی ایسی چادر اوڑھنا جس سے کامل ستر حاصل ہوجائے۔ آیت60میں منافقین اور فاسقین‘ جن کے دلوں میں عداوتِ مصطفی کا روگ ہے اور مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کو خبردار کیاگیا کہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے‘ تواُنہیں مدینے میں رہنے نہیں دیاجائے گا اور یہ لوگ لعنتی ہیں اورجہاں بھی پائے جائیں ‘انہیں چن چن کر قتل کردیا جائے۔ آیت67میں بتایاکہ فِسق وفجور اور گمراہی کو اختیار کرنے والے اور اُن کے لیڈر قیامت کے دن ایک دوسرے کے خلاف سلطانی گواہ بنیں گے ۔آیت70سے اہلِ ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے‘ سیدھی اورکھری بات کرنے اوراپنے اعمال کو درست رکھنے کا حکم دیاگیا اور ان اعمال کی جزا گناہوں کی مغفرت اوربڑی کامیابی بتائی گئی ۔

[pullquote]سورۂ سبا [/pullquote]

آیت:09میں دشمنانِ رسول کے لئے عبرت ناک عذاب کی وعید ہے ۔آیت10سے حضرت داؤد علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے کہ اُنہیں فضیلت دی‘پہاڑ اور پرندے اُن کے ساتھ تسبیح کرتے تھے ‘لوہا اُن کے لئے نرم کردیاگیاتھا اور وہ زِرہیں بناتے اورباندھنے کے لئے اُن میں کڑیاں ڈالتے۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے کہ ہوا اُن کے تخت کو تیزرفتاری سے اڑاکرلے جاتی ‘اُن کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا ‘اللہ کے اِذن سے جِنّات اُن کے اَحکام کو بجالانے کے پابندتھے‘ سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جِنّات بڑے بڑے قلعے اور ٹاور‘ مجسمے اور حوضوں کے برابر ٹب اور چولہوں پر جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ‘ان تمام نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آلِ داؤد !شکرکرواور میرے بہت کم بندے شکر گزار ہیں ۔

دریں اثنا جِنّات سلیمان علیہ السلام کے حکم سے تعمیرات میں مصروف تھے ‘تووہ ایک بِلّوریں(Crystal)کیبن میں تشریف فرماہوئے اور اس دوران قضائے الٰہی سے اُن کی وفات ہوگئی ‘مگر جِنّات کو اُن کی وفات کا تب پتاچلا جب دیمک نے اُن کے عصاکو جس سے وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے ‘اندر سے چاٹ لیا اور پھر وہ زمین پر گر گئے ‘ اُس وقت جِنّات کفِ افسوس ملنے لگے کہ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو اتنے طویل عرصے تک ہم ذلت آمیزمزدوری میں مصروف نہ رہے ہوتے‘شاید یہی وہ ”ہیکلِ سلیمانی ‘‘ ہے ‘جس کے آثار کی تلاش میں یہود وقتاً فوقتاً بیت المقدس کی عمارت کو گرانے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ موت انبیاء کے اَجسام پر کوئی طبعی اثرات مرتب نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ جِنّات کو اُن کی موت کا پتانہ چل سکا۔ آیت15سے ایک بار پھر ملکۂ سبا کے باغات اور اُن پر تُندوتیز سیلاب اور اُس کی تباہ کاریوں کا ذکر ہے۔آیت 22 سے مشرکین کے باطل معبودوں کی بے بسی کا ذکر ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے اذن کے بغیر کسی کو مجالِ شفاعت نہیں۔

آیت28میں سیدنا محمد رسول کریمؐ کی رسالتِ عامہ کا ذکر ہے کہ آپ کی دعوت پورے عالمِ انسانیت کے لئے تھی اور یہ سارا عالمِ انسانیت آپ کی ”اُمّتِ دعوت ‘‘ ہے اور جن خوش نصیب اہلِ ایمان نے اِس دعوت کو قبول کیا ‘وہ سب ”اُمّتِ اجابت ‘‘ ہیں۔اگلی آیات میں اس مفہوم کا بیان ہے کہ اپنے عہد کے جابروں اور مُتکبرین کو آخرت میں اُن کے عہد کے کمزور طبقات کے لوگ یہ کہیں گے کہ ہمارے ایمان سے محرومی کا سبب تم بنے تھے ۔ مزید بتایاکہ پچھلی اُمّتوں کے خوشحال لوگ مال ودولت کی فراوانی کو اپنی مقبولیت کی دلیل سمجھتے تھے ‘اللہ نے فرمایا: اُس کا قُرب مال ودولت کی فراوانی سے نہیں ملتا‘ بلکہ ایمان اور عملِ صالح کی دولت سے ملتاہے ‘رزق کی کشادگی یا تنگی کا تعلق کسی کی فضیلت یا بے توقیری سے نہیں ہے‘ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ کبھی وہ نعمتوں کی فراوانی امتحان کے طورپر فرماتاہے اور کبھی ابتلا وآزمائش کے طورپر ۔

[pullquote]سورۂ فاطر [/pullquote]

اِس سورت کی ابتدامیں بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے دودواور چار چار پروں والے فرشتے پیداکئے‘اللہ تعالیٰ قادرِ مُطلق ہے ‘وہ کسی پر اپنی رحمت کے فیضان کو کھول دے‘ توکسی کی مجال نہیں کہ اسے روک دے اور جس کیلئے وہ روک دے ‘توکسی کی مجال نہیں کہ وہ فیضانِ رحمت عام کردے ۔رسول کریمﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: آپ غمگین نہ ہوں ‘آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیاہے۔آیت9سے ایک بار پھر اللہ کی قدرت کے تحت بارش کے نظام کا ذکر ہے ‘انسان کو اُس کے جوہرِ تخلیق کی طرف متوجہ کیاگیاہے ‘تاکہ سرکشی کا شکار نہ ہو اوریہ کہ وہ مادہ کے پیٹ میں حمل کو بھی جانتاہے اور یہ کہ کسی کی عمر میں درازی یا کمی ہوتی ہے ‘تووہ اللہ کی کتاب وتقدیر میں پہلے سے لکھی ہوتی ہے۔

آیت12سے فرمایاکہ میٹھے اور کھارے پانی کے سمندر برابر نہیں ہوتے ‘لیکن سب سمندروں سے تمہیں مچھلی کا تازہ گوشت ملتاہے اورتم اُن سے پہننے کے زیور نکالتے ہو اورکشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں ‘نظامِ لیل ونہار اور شمس وقمر اُسی کے حکم کے تابع ہے۔ آیت18میں بتایا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ‘یعنی ہرایک کو اپنے اپنے عمل کا جواب دیناہوگا ‘جو تزکیہ اور تقویٰ اختیار کرے گا ‘ اُس کا فائدہ اُسی کو پہنچے گا ۔اندھا اور بینا ‘ظلمت ونور ‘سایہ اور دھوپ اور زندہ ومردہ لوگ برابر نہیں ہوسکتے‘ یہاں کُفار اور منکرین کو اندھے ‘ظلمت ‘دھوپ اور مردے سے تشبیہہ دی اور اہلِ ایمان کو بینا ‘نور ‘سایہ اور زندوں سے تشبیہہ دی۔

اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں یہ بھی بتایاکہ حُجّتِ الٰہیہ قائم کرنے کے لئے ہرقوم کی طرف نذیر‘ یعنی روشن دلائل اور الہامی کتابیں دے کر نبی اور رسول بھیجے گئے ‘ لیکن ہر دور میں پیغامِ حق کو جھٹلانے والے موجود رہے ۔ آیت28میں بتایاکہ علمائے ربانیین کے دلوں میں اللہ کی خشیّت ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کوبرگزیدہ و چنیدہ اور نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے فرماکر جنّت کی اُن نعمتوں کا ذکرکیاجواُن عبادِ صالحین کیلئے تیار ہیں ۔ آیت41سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا اوراگر وہ اپنے مرکز سے ہٹ جائیں ‘تو اللہ کے سوا کوئی اُن کو اپنی جگہ قائم نہیں کرسکتا۔ آیت45میں فرمایا:” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی گرفت فرماتا ‘توروئے زمین پر کسی جاندار کو(زندہ) نہ چھوڑتا‘ لیکن وہ ایک وقت مقررہ تک انہیں ڈھیل دے رہاہے۔پس ‘جب ان کا وقت آجائے گا ‘تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ لے گا‘‘ ۔

[pullquote]سورہ یٰس[/pullquote]

سورت کے شروع میں فرمایاکہ نزولِ قرآن کا مقصد غافل لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراناہے اور اُن پر حق کی حجت کو قائم کرناہے ‘ لیکن کچھ سرکش لوگ ایسے ہیں کہ جن پر دعوتِ حق اثر انداز نہیں ہوتی ۔دعوتِ حق اُنہی پر اثر اندازہوتی ہے ‘جو نصیحت کو قبول کریں اور جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہو ۔اگلی آیات میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوتِ حق کیلئے اپنے نبی ایک بستی (انطاکیہ)کی طر ف بھیجے‘ بستی والوں نے اُن کی تکذیب کی اوراُن سے بدفالی لی اور اُنہیں سنگسار کرنے اور دردناک عذاب دینے کی دھمکی دی ‘انبیاء نے اُن پر حُجّت الٰہیہ کو قائم کیا اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتاہواآیا اور کہاکہ ان کی پیروی کرو‘یہ تم سے کسی اجروانعام کے طلبگار نہیں ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے