کوہستان ویڈیو سکینڈل میں نظر آنے والے مقتول افضل کوہستانی کے بھائی گل نذیر پر غیرت کے نام پر اپنے قریبی عزیز کو قتل کرنے کا الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع الائی کے تھانے بنہ میں درج ایف آئی آر کے مطابق گل نذیر نے محمد وقار کو گاڑی سے نیچے اتار کر اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کیا ہے۔ درج ایف آئی آر کے مطابق یہ قتل غیرت کے نام پر کیا گیا ہے۔ جس میں گل نذیر کو شبہ تھا کہ مقتول محمد وقار کے اس کی بھابھی اور افضل کوہستانی کی بیوہ ہیں کے ساتھ تعلقات ہیں۔
افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے موقف اختیار کیا ہے کہ قتل کے اس واقعے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا ’اس سے پہلے بھی ہمیں پھنسانے کے لیے اس طرح کے جھوٹے مقدمات درج کروائے گے تھے۔ ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں اور حالیہ قتل کے واقعہ میں تو بہت بڑی سازش کی گئی ہے ایف آئی آر میں وجہ عداوت غیرت لکھوائی گئی ہے تاکہ ہمیں جو اخلاقی حمایت حاصل ہے اس کو ختم کیا جائے۔‘
ان کا اپنی بھابھی کے حوالے سے کہنا تھا کہ وہ رمضان سے قبل ایبٹ آباد اپنے میکے گئی تھی اب ہمیں اس کا کچھ پتا نہیں ہے وہ کہاں ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اس واقعہ کی صاف و شفاف تحقیقات کروائی جائیں اور ہمیں انصاف دیا جائے۔
دوسری جانب افضل کوہستانی کی بیوہ کے بارے میں اس کے خاندانی ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ ماہ رمضان سے قبل ایبٹ آباد میں اپنے بچوں کے ہمراہ میکے آئی تھی مگر گذشتہ چار، پانچ روز سے لاپتہ ہے۔ ایس ایچ او تھانہ کینٹ ایبٹ آباد طاہر سلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ افضل کوہستانی کی بیوہ کی گمشدگی کی درخواست پولیس کو موصول ہو چکی ہے جس پر تفتیش جاری ہے۔
خدشہ ہے کہ افضل کوہستانی کی بیوہ حرا بی بی کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔ افضل کوہستانی کے بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے والے محمد وقار کے بھائی محمد سلیمان نے بی بی سی نے مختصر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بغیر کسی ثبوت کے افضل کوہستانی کا بھائی اتنا بڑا قدم اٹھا لے گا۔
جس کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے افضل کوہستانی سمیت ہم سب اور کئی لوگوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گل نذیر نے محمد وقار کو قتل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ میرا چور ہے۔
محمد سلیمان کے مطابق اب اس وقت حرا بی بی کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ کوہستان کے رواج کے مطابق لڑکے کو قتل کرنے کے بعد لڑکی کا قتل فرض ہو جاتا ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق گل نذیر حرا بی بی کے پیچھے ایبٹ آباد روانہ ہوچکا ہے۔
بن یاسر
انسانی حقوق کے کارکن اور کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف کام کرنے والے قمر نسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق گل نذیر نے ایک شخص کو قتل کیا ہے اگرچہ اس کی اپنی زندگی خطرے کا شکار ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ کوہستان کے اندر ابھی بھی مائینڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا ہے اور وہ لوگ جن کے اپنے خاندان اس غیرت کے معاملے کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں وہ بھی دوسروں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔
ایک اور انسانی حقوق کے کارکن تیمور کمال کا کہنا تھا کہ کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل و غارت کے معاملے پر یہ کافی ہوتا ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے اپنی بیوی، بہن، بیٹی، بھابھی کو کسی غیر محرم کے ساتھ دیکھا ہے۔ جس کے بعد وہ چور قرار دے کر خود ہی منصف بن جاتا ہے۔
کچھ معاملات میں جرگہ منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ جرگہ عموماً لڑکی والے طلب کرتے ہیں جس میں اس لڑکے جس پر ان کو شبہ ہوتا ہے کہ لڑکی سے تعلقات ہیں کے خاندان والوں اور علاقے کے بڑوں کو بلایا جاتا ہے۔ جرگہ میں لڑکی والے الزام کے بارے میں بتاتے ہیں اور اس کے بعد جرگہ عموماً بغیر کسی تفتیش کے لڑکی والوں کے دعوی ہی پر لڑکا اور لڑکی کو چور قرار دے دیتے ہیں۔
قمر نسیم اور تیمور کمال کا کہنا تھا کہ چور قرار دینے کا مطلب موت کی سزا ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ ہی لڑکی کے خاندان کو لڑکے اور لڑکی دونوں کے قتل کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2011 میں افضل کوہستانی نے ویڈیو سکینڈل کو منظر عام پر لاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو سکینڈل میں نظر آنے والی لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ اس کے بھائیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
کوہستان ویڈیو سکینڈل میں لڑکیوں کے قتل کا مقدمہ سنہ 2011 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر درج کیا گیا تھا جبکہ افضل کوہستانی کو چند ہفتے قبل ایبٹ آباد میں قتل کیا گیا۔
کوہستان ویڈیو سکینڈل میں چار لڑکیوں کو تالیاں بجاتے جبکہ دو لڑکے جن میں مقتول افضل کوہستانی کے بھائی گل نذیر اور بن یاسر کو تالیوں کی تھاپ پر رقص کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔