دونوں حضرات انبیاء کرام علیھم السلام کی زیارت سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو ساتھ بنی مسجد میں مغرب کی جماعت کھڑی تھی، شریک تو ہوگئے لیکن بعد میں پھر سے ”بے ریش کی امامت” کا مسئلہ زیر بحث آگیا کہ آیا ایسے امام کے اقتداء میں نماز پڑھنے کا کیاحکم ہے جس کی داڑھی بالکل نہ ہو یا ایک مشت سے کم ہو، اس لئے مناسب معلوم ہوتاہے، کہ اس بارے تمام فقہی مذاھب ، متقدین اور معاصر اہل علم کی آراء اور دلائل کا ایک سر سری جائزہ لیا جائے۔
1۔ اس میں دورائے نہیں زندگی کے ہر ہر شعبہ میں سیدنا ومولنا رسول اللہ ﷺ فداہ ابی وامی کے نقش قدم کی اتباع دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے، نیز یہ بات بھی ہر طرح کے اختلاف او ر شک سے بالاتر ہے کہ داڑھی رکھنا، رسول اکرمﷺ کی سنت مطہرہ اور شرعا مطلوب ہے، ) ) کے بارے اہل علم کی آراء مختلف ہیں، جیساکہ ہم عرض کریں گے۔Legal status البتہ اس مطلوب ہونے کی فقہی تکییف
(
2۔جمہور فقہاء کرام یعنی امام ابوحنیفہ ، امام مالک امام احمد بن حبنل اور علامہ ابن حزم ظاہری اور علامہ ابن تیمیہ رحمہم اللہ کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ، اور اس سے کم کو کاٹنا، یا کترنا ناجائزہے، (معاصرین میں سے سعودیہ عربیہ ، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے جمہور اہل علم اور افتاء، اسی کے قائل ہیں) چنانچہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں لکھاہے :
ذهب جمهور الفقهاء: الحنفيّة والمالكيّة والحنابلة، وهو قول عند الشّافعيّة، إلى أنّه يحرم حلق اللّحية لأنّه مناقض للأمر النّبويّ بإعفائها وتوفيرها۔
ترجمہ: جمہور فقہاء حنفیہ ، مالکیہ ، حنابلہ اور ایک قول کے مطابق شافعیہ کے نزدیک بھی داڑھی کاٹنا ، اسکو چھوڑنے اور بڑھانے کے بارے وارد امر نبویﷺ ” کے مخالف ہونیکی وجہ سے حرام ہے، اور قریب قریب اسی مضمون یا اس سے کچھ زیادہ سخت الفاظ و تعبیر ان تینوں مذکورہ بالا فقہاء کرام کی کتب میں موجود ہیں۔
پھر ان حضرات کا آپس میں اختلاف ہے کہ آیا داڑھی رکھنا فرض ہے یا واجب ؟
تو ائمہ ثلاثہ اور علامہ ابن حزم کے نزدیک فرض ہے، جبکہ سادات حنفیہ کے واجب، دراصل اس اختلاف کی بنیاد ایک اور اصولی اختلاف پہ مبنی ہے، اس کی تفصیل یہ ہیکہ سادات ائمہ ثلاثہ( امام مالک، امام شافی اور راجح قول کے مطابق امام احمد) اور علامہ ابن حزم (رحمہم اللہ ) کے نزدیک فرض اور واجب کے درمیان کوئی فرق نہیں ، چنانچہ فقہ مالکی کے مشہور فقیہ علامہ بن حاج فرماتے ہیں:
والفرض والواجب ذو ترادف.:. ومالَ نعمان إلى التخالف
والفرض والواجب قد توافقا.:. كالحتم واللازم مكتوب وما.
ترجمہ: ( جمہور کے نزدیک)فرض اور واجب آپس میں مترادف ہیں، البتہ نعمان(امام اعظم) ان کے باہم مختلف ہونے کیطرف گئے ہیں، اور فرض، واجب، حتمی، لازم اور مکتوب سب آپس میں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں)
یہی بات مشہور شافعی فقیہ اور اصولی امام آمدی نے لکھی ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
فَلَا فَرْقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَالْوَاجِبِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا ; إِذِ الْوَاجِبُ فِي الشَّرْعِ عَلَى مَا ذَكَرْنَاهُ عِبَارَةٌ عَنْ خِطَابِ الشَّارِعِ.
ترجمہ: ہمارے اصحاب مذہب کے نزدیک فرض اور واجب کے درمیان کوئی فرق نہیں، کیونکہ شرعا واجب -جیساکہ ہم بتاچکے ہیں- خطاب شارع کا نام ہے۔
جبکہ سادات حنفیہ کے نزدیک فرض صرف ایسی دلیل قطعی سے ثابت ہوسکتا ہے، جس کے ثبوت اور دلالت میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، علمی اصطلاح ) سے تعبیر کیاجاتاہے، جیسےDefinitive with respect to transmission and meaningمیں اسے قطعی الثبوت والدلالہ (
قرآن کریم کی وہ آیت جس کی تشریح وتفسیر میں ایک سے زائد آراء کی گنجائش نہ ہو، یا اسی طرح کی حدیث متواتر، کیونکہ پھر اس کے منکر کا اسلام )Probable per transmission and meaningمیں کوئی حصہ باقی نہیں رہتا، جبکہ واجب کے ثبوت کیلئے ظنی الثبوت والدلالہ(
یعنی جو اپنے ثبوت میں مذکورہ بالا پہلی قسم کا مقابلہ نہ کر سکے، یا جس کی تشریح میں ایک سے زائد آراء کی گنجائش ہو، چنانچہ فرخ الاسلام علامہ بزودی فرماتے ہیں:
أَمَّا الْفَرْضُ فَحُكْمُهُ اللُّزُومُ عِلْمًا وَتَصْدِيقًا بِالْقَلْبِ، وَهُوَ الْإِسْلَامُ وَعَمَلًا بِالْبَدَنِ، وَهُوَ مِنْ أَرْكَانِ الشَّرَائِعِ وَيَكْفُرُ جَاحِدُهُ وَيُفَسَّقُ تَارِكُهُ بِلَا عُذْرٍ، وَأَمَّا حُكْمُ الْوُجُوبِ فَلُزُومُهُ عَمَلًا بِمَنْزِلَةِ الْفَرْضِ لَا عِلْمًا عَلَى الْيَقِينِ لِمَا فِي دَلِيلِهِ مِنْ الشُّبْهَةِ حَتَّى لَا يَكْفُرَ جَاحِدُهُ وَيُفَسَّقَ تَارِكُهُ إذَا اسْتَخِفَّ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ فَأَمَّا مُتَأَوِّلًا فَلَا.
ترجمہ: رہا فرض ، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو درست جاننا، دل سے اس کی تصدیق کرنا، اور عمل کرنا ساری باتیں لازمی ہیں، اور وہ اسلام اور شریعت کے ارکان میں سے ایک ہے، جس کو نہ ماننے والے کافر، اور بلاعذر ترک کرنے والے کو فاسق کہاجائے گا، باقی رہا واجب تو عمل کرنے کے اعتبار سے وہ بھی فرض کی طرح ہے، البتہ علم یقین کے اعتبار سے نہیں، کیونکہ اس کی دلیل میں فرض کی دلیل جیسی قطعیت نہیں ہوتی، یہاں تک کہ اس کے منکر کو کافر نہیں کہ سکتے، البتہ اس کے تارک کو بھی فاسق اس وقت کہاجائے گا، جب وہ اخبار آحاد پر عمل کر نے کو واجب نہ سمجھتے ہوئے ترک کردے، ہاں اگر اس کی ( کوئی علمی اور مقبول ) تاویل کرے تو دوسری بات ہے۔
حضرات حنابلہ کا ایک قول حنفیہ جیسا بھی موجود ہے۔چنانچہ قاضی ابو یعلی الحنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقد اختلفت الرواية عن أحمد -رحمه الله- في الفرض والواجب هل حدُّهما في الشرع حدٌّ واحد، أم بينهما فرق؟ فيه روايتان
أحدهما: أن حدَّهما واحد..
والثانية: أن الواجب ما ثبت وجوبه بخبر الواحد والقياس، وما اختلف في وجوبه، والفرض ما ثبت وجوبه من طريق مقطوع به، كالخبر المتواتر، أو نص القرآن، أو إجماع الأمة، وفي هذا خلاف بين الفقهاء.
اہل علم اسی جماعت کا آپس میں دوسرا اختلاف اس بات پر کہ آیا مطلقا داڑھی رکھنا واجب ہے، یا ایک مشت، جمہور کے نزدیک صرف ایک مشت واجب ہے، اور ایک مشت سے زائد کاٹنا مستحب ہے، چنانچہ علامہ تمر تاشی اور علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
أو تطويل اللحية إذا كانت بقدر المسنون وهو القبضة وصرح في النهاية بوجوب قطع ما زاد على القبضة بالضم ، ومقتضاه الإثم بتركه لا أن يحمل الوجوب على الثبوت ، وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد ، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم .
بلکہ علامہ ابن الجوزی نے ایک قدم آگے بڑھ کر ایسے شخص( جس کی داڑھی بہت زیادہ لمبی ہو، قدر مسنون بھی زیادہ) کے بارے کم عقل لکھاہے، چنانچہ علامہ اپنی مشہور زمانہ کتاب کتاب الحمقی والمغفلین میں لکھتے ہیں:
ومن العلامات التى لا تخطىء طول اللحية فان صاحبها لا يخلو من الحمق وقد روي انه مكتوب فى التوراة إن اللحية مخرجها من الدماغ فمن أفرط عليه طولها قل دماغه ومن قل دماغه قل عقله ومن قل عقله كان أحمق۔
ترجمہ: وہ علامات جو غلط نہیں ہوتیں، ان میں سے ایک داڑھی کا بہت زیادہ لمبی ہونا بھی ہے، ایسا شخص عموما حماقت سے خالی نہیں ہوتا، تورات کی ایک روایت کے مطابق داڑھی کا مرکز دماغ ہے، پس جو اس میں افراط سے کام لے گا، لازمی طور پر اس کا دماغ کم ہوگا، اور جس کا دماغ کم ہو تو اس کی عقل بھی کم، اور جس کی عقل کم ہو، وہ احمق ہوگا۔
جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک مطلقا داڑھی رکھنا واجب ہے، معاصرین میں سے سعودیہ عربیہ کے علماء کرام نے اس کو اختیار کیا ہے، چنانچہ سعودی عربیہ سابق مفتی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ ایک مشت سے زائد داڑھی کے کاٹنے کو جائز سمجھنے اور اس کیلئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کے عمل سے استدلال کر نے والوں پر رد کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
من احتج بفعل ابن عمر رضي الله عنهما أنه كان يأخذ من لحيته في الحج ما زاد على القبضة. فهذا لا حجة فيه، لأنه اجتهاد من ابن عمر رضي الله عنهما، والحجة في روايته لا في اجتهاده. وقد صرح العلماء رحمهم الله: أن رواية الراوي من الصحابة ومن بعدهم الثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم هي الحجة، وهي مقدمة على رأيه إذا خالف السنة.
کے ساتھ کہ حنابلہ ، ابن حزم ظاہری داڑھی کی فرضیت کے قائل ہیں ، معاصرین میں سے سعودیہ عربیہ کے اہل فتوی بھی اسی کے قائل ہیں، جبکہ علماء احناف کے نزدیک فرضیت کے ثبوت کیلئے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت نص کا ہونا ضروری ہے، اسی لئے وہ داڑھی کے و اجب ہونے کے قائل ہیں، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کا بھی ہے۔
2۔ امام شافعی کے نزدیک داڑھی رکھنا سنت اور ایک مشت سے کم کاٹنا مکروہ تنزیہی ہے۔معاصر اہل علم میں کئی عرب ممالک مثلا قطر، کویت، مصر، تیونس، الجزائر، یمن ، جامعہ الازھر، ملیشیا، انڈونیشیا اور ترکی کے اہل افتاء اور اہل علم نے اس رائے کو اختیار ہے۔
موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:
والأصحّ عند الشّافعيّة: أنّ حلق اللحية مكروه۔
ترجمہ: اصح یہ ہے کہ شوافع کے نزدیک داڑھی منڈوانا مکروہ ہے۔
فقہ شافعی کے مشہور فقیہ امام رملی جن کو الشافعی الصغیر ( چھوٹے امام شافعی) کہا جاتاہے ، لکھتے ہیں:
وَلَيْسَ عَدَمُ جَوَازِ حَلْقِ اللِّحْيَةِ مَبْنِيًّا عَلَى حُرْمَةِ حَلْقِ اللِّحْيَةِ خِلَافًا لِمَنْ زَعَمَهُ؛ لِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ مِنْ التَّصَرُّفِ فِي نَفْسِهِ مَا لَيْسَ لِغَيْرِهِ اهـ (قَوْلُهُ: وَإِنْ قُلْنَا بِكَرَاهَتِهِ) أَيْ إذَا فَعَلَهُ بِنَفْسِهِ۔
ترجمہ: (سزا کے طور پرکسی دوسرے شخص کی ) داڑھی منڈوانے کے ناجائز ہونے یہ مطلب نہیں کہ خود اپنی داڑھی مونڈنا بھی حرام ہے، اس لئے کہ انسان کو اپنے بدن میں ایسا تصرف کرنے کا حق ہے،جو دوسرے کو نہیں، اگرچہ ہم نے بھی خود اپنی داڑھی مونڈنے کو مکروہ کہاہے۔
وَكَذَا الْكَبِيرُ أَيْضًا أَيْ إنَّ حَلْقَ اللِّحْيَةِ مَكْرُوهٌ حَتَّى مِنْ الرَّجُلِ وَلَيْسَ حَرَامًا.
ترجمہ: یعنی مرد کی داڑھی مونڈنا مکروہ ہے، حرام نہیں۔اور یہی بات امام دمیاطی شافعی نے بی لکھی ہے، :
أي في حلق اللحية وفي الخضب، فقالوا: لا يحرمان، بل يكرهان فقط۔
ترجمہ: داڑھی مونڈنا اور خضاب لگانا مکروہ ہیں، حرام نہیں۔
بعض باصلاحیت دوستوں کا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ بالا فقہاء شوافع کی عبارات میں میں مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے، تنزیہی نہیں، اور اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ مکروہ کی تحریمی اور تنزیہی والی تقسیم تو صرف احناف کے نزدیک ہے، شوافع کے ہاں نہیں، لیکن ان حضرات کا یہ اصرار درست نہیں، کیونکہ ایک تو مذکورہ بالا عبارات میں جب مکروہ کو حرام کے مقابلہ لاکر ذکر کیا گیا تو تحریمی والی تاویل سقیم معلوم ہوتی ہے، باقی یہ کہنا کہ شوافع کے ہاں کراہت کی تقسیم کا تصور نہیں ، بھی درست نہیں، کیونکہ امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأما المكروه فيقال بالاشتراك على أمور ثلاثة أحدها ما نهي عنه نهي تنزيه وهو الذي أشعر فاعله بأن تركه خير من فعله وإن لم يكن على فعله عقاب وثانيها المحظور وكثيرا ما يقول الشافعي رحمه الله أكره كذا وهو يريد به التحريم وثالثها ترك الأولى كترك صلاة الضحى ويسمى ذلك مكروها لا لنهي ورد عن الترك بل لكثرة الفضل في فعلها والله أعلم۔
اور یہی بات امام غزالی بھی کہتے ہیں:
وأما المكروه فهو لفظ مشترك في عرف الفقهاء بين معاني۔
أحدها: المحظور فكثيرا ما يقول الشافعي رحمه الله وأكره كذا وهو يريد التحريم
الثاني: ما نهي عنه نهي تنزيه وهو الذي أشعر بأن تركه خير من فعله وإن لم يكن عليه عقاب كما أن الندب هو الذي أشعر بأن فعله خير من تركه
الثالث: ترك ما هو الأولى وإن لم ينه عنه كترك صلاة الضحى مثلا لا لنهي ورد عنه ولكن لكثرة فضله وثوابه قيل فيه إنه مكروه تركه۔
دلائل۔
جمہور کا استدلال مندرجہ ذیل احادیث شریفہ ، آثار اور عبارات سے ہے۔
1۔ عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خالفوا المشركين، وفِّروا اللحى وأحفوا الشوارب» ، ولهما عنه أيضا: «أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى» ، وفي رواية: «أنهكوا الشوارب وأعفوا اللحى۔
ایک اور روایت میں: أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى اور دوسری روایت میں أنهكوا الشوارب وأعفوا اللحى کے الفاظ ہیں۔
اور بعض روایات میں خالفوا المجوس۔ کے الفاظ ہیں۔
ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ، اور مونچھے کٹواؤ( الفاظ کے اختلاف کے باوجود ان تمام روایات کا تقریبا یہی مفہوم ہے)
اب مشرکین یا مجوس کی مخالفت کیسے جائے؟
تواس کی تشریح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے: إن أهل الشرك يعفون شواربهم ويحفون لحاهم فخالفوهم فاعفوا اللحى وأحفوا الشوارب۔
.
ترجمہ: اہل شرک مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں کٹواتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔ نیز معجم اوسط طبرانی، سنن بیہقی اور ابن حبان کی روایت کے مطابق مجوسی لوگ مونچھیں بڑھاتے ہیں، اور داڑھیاں کٹواتے ہیں، لہذا تم ان کی مخالفت کرو۔
2۔ وروى الترمذي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس منا من تشبه بغيرنا، لا تشبهوا باليهود ولا بالنصارى، فإن تسليم اليهود الإشارة بالأصابع، وتسليم النصارى الإشارة بالأكف۔
لیکن یہ حدیث سند کافی ضعیف ہے، چنانچہ امام ترمذی خود فرماتے ہیں: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ، هَذَا الحَدِيثَ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، فَلَمْ يَرْفَعْهُ۔.
وزاد الطبراني: ولا تقصوا النواصي، وأحفوا الشوارب وأعفوا اللحى۔
3. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْفُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللِّحَى.
4. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: من تشبه بقوم فهو منهم۔
ترجمہ: جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرےگا، وہ اسی میں سے ہوگا۔
5۔ أن رجلا من المجوس جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وقد حلق لحيته وأطال شاربه، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ما هذا؟ قال: هذا ديننا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في ديننا أن نحفي الشوارب وأن نعفي اللحية۔
ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس طرح حاضرہوا کہ اس نے مونچھیں بڑھائی ہوئیں تھیں، اور داڑھی کٹائی ہوئی، آپﷺ نے پوچھا: یہ کیاہے؟ کہنے لگا: ہمارا دین! آپﷺ نے فرمایا: لیکن ہمارے دین یہ ہے کہ ہم مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔
6۔ وأخرج الحارث بن أبي أسامة، عن يحيى بن كثير قال:أتى رجل من العجم المسجد، وقد وفر شاربه وجز لحيته، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما حملك على هذا؟ فقال: إن ربي أمرني بهذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله أمرني أن أوفر لحيتي وأحفي شاربي۔
ترجمہ :یحی بن کثیر سے روایت ہے کہ ایک عجمی شخص مسجد میں آیا، اس نے مونچح بڑھائی اور داڑھی کٹوائی ہوئی تھی، آپﷺ نے پوچھا تو کہنے لگا: میرے آقا کا حکم ہے، آپﷺ نے فرمایا: میرے رب نے مجھے مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیاہے۔
7۔ وروى ابن جرير، عن زيد بن حبيب قصة رسولي كسرى قال:ودخلا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد حلقا لحاهما وأعفيا شواربهما، فكره النظر إليهما، وقال: ويلكما من أمركما بهذا؟ قالا: أمرنا ربنا، يعنيان: كسرى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ولكن ربي أمرني بإعفاء لحيتي وقص شاربي۔
ترجمہ: حضرت زید کہتے ہیں کہ جب کسری کے سفیر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں آئے تو انہوں نے اپنی مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، اور داڑھیاں کٹوائی ہوئیں، آپ ﷺ نے انکی طرف دیکھنا پسند نہ فرمایا آپﷺ نے فرمایا: تہمارے لئے ہلاکت ہو، کس نے تمہیں ایسا کرنے کا کہا؟ ہمارے آقا یعنی کسری نے، آپﷺ نے فرمایا لیکن میرا رب تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیاہے۔
8۔ نیز علامہ ابن حزم الظاہری نے داڑھی کے وجوب پر اجماع کا دعوی کیا ہے، لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ امام شافعی جیسے جلیل القدر امام کے اختلاف کے ہوتے ہوئے اجماع کا دعوی کافی مشکل ہے۔
9۔صحابہ کرام وتابعین رضی اللہ عنھم کا عمل، ان میں سے کسی سے بھی داڑھی کا کاٹنا منقول نہیں۔
10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم، قَال: لاَ تَشَبَّهُوا بِالأَعَاجِمِ غَيِّرُوا اللِّحَى۔
ترجمہ :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عجمیوں کی مشابہت اختیار مت کیا کرو، داڑھیوں کو خضاب لگاکر( ان کا رنگ تبدیل کیاکرو)
11.عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: حفوا شواربكم و أعفوا لحاكم.
بہرحال دلائل کے ضعف و قوت کا جائزہ لیئے بغیر مندرجہ بالا عبارات سے یہ ثابت ہورہاہے کہ داڑھی کے وجوب کا مسئلہ اجتہادی اور ائمہ اربعہ کے درمیان مختلف فیہا ہے، ایسے مسائل میں انسان خود تو جس قدر ممکن ہو احتیاط کا دامن نہ چھوڑے، عزیمت پر عمل کرے، اور مراعاۃ الخلاف ( یعنی اختلافی مسائل پر ایسی راہ اختیار کرنا، جو سب کے نزدیک جائز اور بہتر ہو) کی کوشش کرے، لیکن فتوی دینے اور دوسروں کی اصلاح کے سلسلہ میں سخت الفاظ کے استعمال سے احتیاط کی جانی چاہیئے، مثلا اسی داڑھی والے مسئلہ میں ہی آدمی اپنے مجتہد فیہا مسائل کے بارے میں سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے ایک سنہری اصول لکھاہے، فرماتے ہیں:
"لیکن اس جگہ گناہ وثواب یا طاعت و معصیت کے بجائے معروف و منکر کا لفظ استعمل کرنے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ وہ دقیق اور اجتہادی مسائل جن میں قرآن وسنت کے اجمال یا ابہام کی وجہ سے دورائیں ہوسکتی ہیں، اور اسی بناء پر ان میں فقہاء امت کے اقوال مختلف ہیں، وہ اس دائرہ سے خارج ہیں، ائمہ مجتہدین جن کی شان اجتہاد علماء امت میں مسلم ہے، اگر کسی مسئلہ میں ان کے دومختلف قول ہوں تو ان میں سے کسی کو بھی منکر شرعی نہیں کہاجاسکتا، بلکہ اس کی دونوں جانبین معروف میں داخل ہیں، ایسے مسائل میں ایک رائے کو راجح سمجھنے والے کیلئے یہ حق نہیں کہ دوسرے پر ایسا انکار کرے جیسا گناہ پر کیاجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ وتابعین میں بہت سے اجتہادی اختلافات اور متضاد اقوال کے باوجود یہ کہیں منقول نہیں کہ وہ ایک دوسرے پر فاسق یا گناہ گار ہونے کا فتوی لگاتے ہوں، بحث وتمحیص اور مناظرے ومکالمے سب کچھ ہوتے تھے، اور ہر ایک اپنی رائے کی ترجیح کی وجوہ بیان کرتا اور دوسرے پر اعتراض کرتاتھا، لیکن کوئی کسی کو اس اختلاف کی وجہ سے گنہ گار سمجھتاتھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اجتہادی اختلاف کے موقع پر یہ ہر ذی علم کو اختیار ہے کہ جس جانب کو راجح سمجھے اسے اختیار کرے، لیکن دوسرے کے کے فعل کو منکر سمجھ کر اس پر انکار کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ اس سے واضح ہواکہ اجتہادی مسائل میں جنگ وجدل یا منافرت پھیلانے والے مقالات و مضامین امر بالمعروف یا نہی عن المنکر میں داخل نہیں، اس مسائل کو محاذ جنگ بنانا صرف اور صرف ناواقفیت یا جہالت کی دلیل ہی وجہ سے ہوتاہے۔
اس لئے اس بے علم وعمل طالب علم کی رائے یہ ہے کہ آدمی کو جہاں امام کے مقرر یا معزول کرنے کا اختیار ہو تو وہاں صرف ایسے شخص کو امام بنائے جس کی وضع قطع سنت کے مطابق ہو، لیکن جہاں اس کا اختیار نہ ہو ، یا ایسے افراد جن کی وضع قطع سنت کے مطابق نہیں، ان کو فاسق قرار دینا ، اور ان کی اقتداء میں پڑھی جانے والی نمازوں کو واجب الاعادہ قرار دینا درست نہیں۔ بالخصوص جب عالم اسلام کے اکثر اہل اسلام بلکہ اہل علم بھی اس کا شکار ہیں۔
واللہ اعلم وجزی اللہ شخصا ارشدنی الی الصواب