’’منطق الطیر، جدید‘‘ ناول، تاریخ اور عشق

ریل کی پٹڑی پر ہوا ابلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ حرارت کی لہریں تھیں جو کبھی نیچے سے اوپر کو اٹھتی اور کبھی اوپر سے نیچے کی جانب اترتی معلوم ہوتیں۔ گاؤں میں چھوٹی چھوٹی نہروں کے کنارے کچے راستے اس موسم میں دھول سے اٹ جاتے ہیں۔ کیکر پیلے پھولوں کی چادر اتار کر پھلیوں کے گہنے کانوں میں آویزاں کر لیتے ہیں۔ ٹاہلیوں کی چھائوں فاختائوں کا ٹھکانہ بنتی ہے۔ گھاس حبس کی باس دیتا ہے اور سانپ راتوں کو باہر نکل آتے ہیں۔

میری یہ لفظی تصویریں منطق الطیر، جدید کی تصویروںکے سامنے ہیچ ہیں۔ ہم زمین زادے حرارت اور پانی سے پیدا ہوئے۔ دونوں ہماری زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ شاید روح کی پیدائش میں حرارت کے ساتھ کوئی اور غیر مادی عنصر گھول دیا گیا ہے جو کھنکتی مٹی سے بنے بت سے نکلتے ہی یہ اوپر کو اٹھتی ہے۔ تار کول کی سڑکوں پر لہراتی گرم لہروں کی طرح۔ کچھ ضروریات بدن کی ہیں جو ہر حال میں پوری کرنا پڑتی ہیں۔ کچھ جبلتیں روح کی ہیں جنہیں مادی ریاضتوں سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ریل کی پٹڑی پر لہراتی تپش کی اپنی ریاضت ہے۔

تارکول کی سڑکوں پر بل کھاتی حرارت کے اپنے تقاضے۔ عشق صرف مٹی سے نہیں بنا۔ یہ حرارت کی روحانی شکل ہے۔ جہاں تک حرارت ہے۔ عشق وہاں تک ہے۔ جہاں حرارت اور روشنی کا ہاتھ ایک دوسرے سے چھوٹ جاتا ہے وہاں بلیک ہول ہے۔ صدیوں تک تاریکی کا سفر نہ کوئی روشنی ‘ نہ کرن‘ نہ امید۔ عشق کے کچھ آثار ہیں۔ بالکل آثار قدیمہ جیسے۔ اگر آپ نے وارث شاہ ‘ بلھے شاہ، مولانا روم یا شیخ فریدالدین عطار جیسے عشق شناسا لوگوں کو پڑھ رکھا ہے تو ممکن ہے روح کی ماہیت سے کچھ دلچسپی ہو لیکن کیا کسی تمثیل کے بغیر آپ اپنے اردگرد عشق کے آثار کی قدر و قیمت جان پائیں گے؟

آپ کو پتہ چلے کہ ایک اجڑا ہوا مزار کسی کی کل سلطنت ہے، ایک شعر کسی کی عمر بھر کی کمائی ہے اور ایک ٹیلہ صوفیوں، جوگیوں کا مرکز یقین ہے تو اس اچانک انکشاف تک لے جانے والے کیلئے آپ کے جذبات بھی عقیدت سے بھر جاتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے ’’منطق الطیّر‘ جدید‘‘لکھا۔ کئی ماہ پہلے انہوں نے عنائت کیا۔ اب ہر تحریر کالم تو ہوتی نہیں کہ سامنے آئی اور پڑھ ڈالی۔ مزاج کی اپنی نشست ہوتی ہے۔ کچھ اضطراب معلوم ہو اور حرارت کی لہریں مٹی کے بت سے نکلنے کو زور کریں تو اس ناول کا مطالعہ شروع کر دیں۔

تارڑ صاحب عشق کے پرندوں کی پیدائش‘ صفات اور پھر انفرادیت کا بیان جاری رکھتے ہیں۔ مگر ناول صرف پرندوں سے علامتی کہانی کہنے تک محدود نہیں۔ اس کی علامت نگاری کے ساتھ ایک مرکزی خیال حقیقت نگاری ہے۔ کوہ طور کا جلوہ ،حضرت عیسیٰ کی صلیب میں گھر بنانے والا پرندہ‘ وہ پرندہ جس کا دل غار حرا میں مصروف عبادت صادق و امین کے جوتوں کی ہر گانٹھ میں بندھ گیا۔ منصور حلاج کے خون سے بنا اور طاہرہ کی محبت کا پرندہ۔ یہ پرندے ہیں جو اپنے اپنے زمانوں کی قید سے نکلتے ہیں۔

ہر پرندے کو اڑان کے لئے پورا ایک آسمان ملا ہے۔ سب سفر کرتے ہیں‘ ممکنات کا سفر ‘ حیرتوں کا سفر اور پھر ایک جگہ مل جاتے ہیں۔ حیران کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا بھی ہے۔ پھر نیا سفر‘ نئی منزلیں ‘ پورن بھگت ‘ ہری بھرتری‘نیشا پور‘ ٹلہ جوگیاں اور ایک باکمال مصور جسے اولاد سے محروم رکھ کر خدا نے علم و دانش اور عرفان کی دولت عطا کر دی تھی۔ ڈیفنس لاہور کا رہائشی موسیٰ حسین جان لیتا ہے کہ وہ صاحب اولاد نہیں ہو سکتا مگر حقیقت کی تلاش میں پہلے سیالکوٹ میں پورن بھگت کے کنوئیں پر جاتا ہے پھر ٹلہ جوگیاں کے اسرار بھرے سفر پر چل پڑتا ہے۔

راستے میں اسے دنیا کو محبت اور حق سے روشناس کرانے والی شخصیات ملتی ہیں۔ صدیوں سے پرواز کرتے عشق کے پرندے اپنی حکائتیں بیان کرتے ہیں۔ ناول پنجاب کی ثقافتی اور روحانی تاریخ کو بلند کرتا ہے۔ اس پیرائے سے آگاہ ناقدین کی کمی کی وجہ سے یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ تارڑ صاحب کی اس تخلیق کو مروجہ اصولوں پر پرکھا نہ جا سکے مگر منطق الطیر‘ جدید ایک ایسا ناول ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مداحوں میں اضافہ کرتا رہے گا۔

کچھ ثقافتی رنگ اور ساتھ روحانی بیان‘ مستنصر حسین تارڑ نے اس موضوع کو استادانہ انداز میں پکڑا ہے۔ زمین‘ جھاڑیوں‘ جھریوں‘ آوازوں‘ آسمان اور راستوں کی معنویت بھلا اس طرح کوئی بیان کر سکتا ہے۔ انسان کی خواہش کئی صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے کئی ذرائع ہوتے ہیں۔ خواہش بدن کو درد دیتی ہے مگر روح کا معاملہ بدن جیسا نہیں ہوتا۔ نظر کے سامنے سراب اسی وقت اٹھتے ہیں جب منزل کا پتہ نہ ہو۔

ناول میں کئی پرتیں ہیں ،کرداروں کو تاریخ کے حجاب سے باہر نکال لینا، انہیں نئے عہد کا حصہ بنانا اور پھر ان کے عہد اور ان کی ذات کا سارا تجزیہ کہانی کا حصہ بنا لینا آسان نہیں۔ ناول تخلیق آدم سے لے کر آج کے عہد تک کے استعاروں سے آراستہ ہے۔ ہم اس عہد میں جی رہے ہیں جب سطحیت اور عمومیت کو ہنر تصور کیا جاتا ہے۔ ناول لکھنے والا عموماً تاریخ کے کسی ایک دور سے پوری زندگی کے لئے منسلک ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اپنے کرداروں کی زبان بولنے لگتا ہے۔

یہ اعزاز تارڑ صاحب کے حصے میں آیا کہ ان کا قاری ان کے مختلف ناولوں کے کرداروں اور ان کے مکالموں کو کسی دوسرے ناول کا پس منظر سمجھنے کے لئے استعمال کر لیتا ہے۔ تاریخ‘ فلسفہ اور کہانی کو ملا کر پھیلانا آسان نہیں۔ کئی مقامات پر ناول اپنے قاری کی علمی استعداد کا امتحان لیتا ہے۔ میں یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ مستنصر تارڑ کی آفاقیت کا مرکز پنجاب اور اس کے صوفیاء ہیں۔ اگر کبھی پنجاب کو قدر دان نقادمل گیا تو منطق الطیر، جدید میں پیش کردہ تصورات کو الگ کتاب میں باندھنا ممکن ہو گا۔ پھر نتارہ ہو گا کہ مذہب اور عشق میں سے کون برتر ہے اور دونوں کا وصل اور جدائی کن روحانی حادثات کوجنم دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے