اسلام آباد: نیب نے سابق صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپورکو گرفتار کرلیا۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے گزشتہ روز جعلی اکاؤنٹس کیس میں فریال تالپور کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کیے تھے جس کے بعد ان کی گرفتاری کے وارنٹ گزشتہ رات جاری کیے گئے۔
میڈیا کے مطابق نیب نے رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور کو اسلام آباد میں زرداری ہاؤس کے قریب ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا اور انہیں کل احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
نیب فریال تالپور کو اپنے دفتر منتقل نہیں کرے گی اور انہیں اسلام آباد میں ہی واقع ان کی رہائش گاہ میں رکھا جائے گا جس کے لیے نیب نے ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا اور اس کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔
نیب کی ٹیم نے فریال تالپور کے طبی معائنے کے لیے ڈاکٹر کی ٹیم کو ان کی رہائش گاہ پر طلب کرلیا ہے۔
نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ فریال تالپور تاحکم ثانی اپنے گھر میں قید رہیں گی، ان کی عزت نفس کا پہلے بھی احترام رکھا گیا اور آئندہ بھی مکمل خیال رکھا جائے گا۔
نیب نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو خط کے ذریعے فریال تالپور کی گرفتاری کے بارے میں آگاہ کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ رکن سندھ اسمبلی کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔
[pullquote]مریم نواز کا ردعمل[/pullquote]
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے فریال تالپور کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سیایسی مخالفوں کی بہنیں، بیٹیاں جیلوں میں جھوٹے مقدمات کی نذر جب کہ صرف ایک مقدس و معصوم بہن علیمہ خان ہے جو جو اعتراف جرم کر کے اربوں کے اثاثے ثابت ہونے پر جرمانہ بھر کر قانون کا تمسخر اڑا کر چلتی بنی۔
وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ عمران خان 300 کنال کےگھر میں شاہانہ زندگی گزارتا ہے اور قانون سے بالاتر ہے، علیمہ خان بالکل اپنے بھائی کی طرح ہے جو نہ خاندانی رئیس ہے اور نہ ہی ان کا ذریعہ آمدن معلوم ہے۔
[pullquote]جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر[/pullquote]
منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔
معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دی جس نے گزشتہ برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔
جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔
اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا جب کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔
سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے جب کہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بجھجوانے کا حکم دیا۔
اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔
نیب نے 7 جنوری کو ہی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی جی نیب راولپنڈی کو دی گئی۔
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے 20 مارچ کو نیب کی کمائنڈ انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔
نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں تین ریفرنسز تیار کر کے نیب ہیڈ کوارٹر بھجوائے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 2 اپریل کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس اومنی گروپ کے چیف ایگزیکٹو عبدالغنی مجید اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی۔
فریال تالپور نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں عبوری ضمانت میں 5 مرتبہ توسیع حاصل کی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں فریال تالپور اور آصف زرداری کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد سابق صدر آصف زرداری کو 10 جون کو زرداری ہاؤس اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا۔