استنبول سے بھوربن تک

استنبول سے بھوربن تک ، مسلم معاشروں کے دو مختلف رویے ہمارے سامنے ہیں ۔ ہم چاہیں تو اس میں سے عبرت اور حکمت دونوں کو تلاش کیا جا سکتا ہے ۔

ایک طرف ترکی ہے ۔ اس میں کیا شک ہے طیب اردوان نے ترکی کی تعمیر کی اور اسے اقوام عالم میں سر بلند کیا ۔ غیر معمولی مقبولیت نے انہیں بہت طاقتور کر دیا ۔ جب طاقت کا یہ احساس مسائل پیدا کرنے لگا تو ترکی کے سماج کا شعور اجتماعی بروئے کار آیا اور استنبول کے میئر کے انتخابات میں اردوان کی جماعت کو تیرہ ہزار ووٹوں سے شکست ہو گئی ۔ اس شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے چیلنج کیا گیا اور نئے انتخابات ہوئے تو سماج کے اجتماعی شعور نے توہین کے احساس کے تحت شدید رد عمل دیا ۔چنانچہ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ پہلے تیرہ ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی تھی اس مرتبہ سات لاکھ پچھتر ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ سات لاکھ اکسٹھ ہزار ووٹ کا فرق چند ماہ میں کیسے پیدا ہو گیا ؟ آپ شاید اس کی کچھ اور تعبیر کریں ، میرے نزدیک یہ ایک زندہ اور متحرک کا سماج رد عمل تھا ۔ سماج نے بتا دیا وہ اپنے شعور اجتماعی کی توہین کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یہاں جو بھی حکومت میں آئے گا اور رہے گا ووٹ کی قوت سے آئے گا ، کسی کو سلطان معظم یا مطلق العنان حکمران بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری جانب بھوربن ہے ۔ یہاں افغان امن کانفرنس ہوئی اور گلبدین حکمت یار تشریف لائے ۔ آج سے تین عشرے قبل بھی یہی گلبدین تھے ۔ موصوف کابل کے قصاب کے طور پر شہرت پا چکے ۔ سوویت یونین کی قابض افواج نے ہنستا بستا کابل چھوڑا اور احمد شاہ مسعود اور گلبدین نے مل کر اس کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ کتنے بے گناہوں کا خون ان کے سر ہے ۔ صرف کابل میں ان کی باہمی لڑائی میں پچاس ہزار لوگ قتل ہوئے ۔ ہوس اقتدار میں ان لوگوں نے ہنستا مسکراتا معاشرہ برباد کر دیا ۔ جب سوویت یونین نے افغانستان میں افواج اتاریں جمی کارٹر امریکہ کے صدر تھے، اس کے بعد ریگن آئے ، بش آئے ، کلنٹن آئے ، بش جونیئر کا دور آیا ، اوبامہ آئے اور اب ڈونلڈ ٹرمپ ہیں ۔ گوربا چوف اور بورس یلسن قصہ ماضی ہو گئے ، دنیا بھر میں نئی قیادتیں ابھر کر سامنے آئیں لیکن افغانستان کی قسمت دیکھیے قیام امن کانفرنس میں آج بھی وہی گلبدین حکمتیار ۔ افغان منظر نامے میں احمد شاہ مسعود کی جگہ ان کے بھائی نے لے لی اور دوستم جیسا خونی کردار آج بھی قومی منظرنامے پرموجود ہے۔

دونوں معاشروں کا فرق دیکھیے ، ایک معاشرے کا شعور اجتماعی اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ وہ طیب اردوان جیسے کردار کو اس کی ساری خوبیوں سمیت پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کو تیار کھڑا ہے اور دوسری جانب افغانستان کا سماج ہے وہ عشروں بعد آج بھی ان کرداروں کے رحم و کرم پر ہے جن کی ہوس اقتدار نے شہروں کو کھنڈر بنا دیا۔حکمت یار کے میزائلوں نے کابل کا ساٹھ فیصد تباہ کر دیا تھا ۔ سماج جب فکری ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی طور پر مفلوج ہو جائے تو وہ تین عشروں کے بعد بھی متبادل قیادت دینے کے قابل نہیں ہوتا اور سماج جب تعمیر کے مراحل سے گزر کر اپنی تہذیب کر چکا ہو تو وہ طیب اردوان جیسے لوگوں کو بھی لاکھوں کے مارجن سے شکست سے دوچار کر دیتا ہے۔

افغانستان تو پھر حالت جنگ میں رہا، اضطراری کیفیت پر عمومی قانون لاگو نہیں ہوتا ۔ لیکن پاکستانی سماج کو کیا ہو گیا ؟ یہاں آج بھی بھٹو زندہ ہے ، یہاں جمہوریت کے نام پر چند خاندان مسلط ہو چکے ہیں ۔ نواسوں اور نواسیوں تک کو سیاست وراثت میں دی جا چکی ۔ مذہبی جماعتیں بھی ، جماعت اسلامی کے استثناء کے ساتھ ، پرائیویٹ لمیٹڈ بن چکیں ۔ جب معاشرے جوہڑ بن جائیں تو ارتقاء رک جاتا ہے ۔ ایسے معاشروں میں بھٹو ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور خلق خدا سسک سسک کر مرتی رہتی ہے لیکن معاشرے جب ارتقاء کی جانب مائل ہوں تو قیادت پیچھے رہ جاتی ہے اور سماج آگے بڑھ جاتا ہے۔ قیادت کی بقاء کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ سماج کے ساتھ ساتھ ارتقاء کی منازل طے کرتی رہے۔

طیب اردوان سے بہت ساری غلطیاں ہوئی ہوں گی ۔ اقربا پروری سے کرپشن تک کون سا الزام ان پر نہیں ہے ۔ انہوں نے خود کو اختیارات کا گھنٹہ گھر بنانے کی کوشش کی۔ مشہور ڈرامہ ارطغرل کی تحسین میں جب میں نے لکھا تو ایک ترک صحافی نے مجھے بتایا اس ڈرامے میں بھی اردوان کے سیاسی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ سیزن ون میں سازشی کردار کرتوغلو کا نام حزب اختلاف کے رہنما کلیدروغلو سے ملتا جلتا ہے تو یہ محض اتفاق نہیں ، اہتمام ہے ۔ اس سے ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ نجات دہندہ صرف اردوان ہیں اور ان کا ہر مخالف سازشی ہے اور غدار ہے ۔ ہر مخالف کرتوغلو ہے ۔ یہ پہلو بھی یقینا اہم ہے لیکن اس سے بھی اہم وہ رویہ ہے جس کا ترک سماج نے مظاہرہ کیا۔

ترک معاشرے نے اردوان کو پیغام دے دیا ہے کہ ارتقاء کا سفر اردوان کی عقیدت پر قربان نہیں کیا جا سکتا ۔ سفر جاری رہے گا۔ اردوان کے پاس اب دو راستے ہیں۔ اول: سماج کے فکری ارتقاء میں اس کے ہم سفر بن جائیں اور سیاسی حیثیت برقرار رکھیں۔ اس صورت میں انہیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا اور اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔انہیں یہ جاننا ہو گا کہ اپنی ساری خوبیوں کے باوجود وہ عوام کے ووٹوں کے محتاج ہیں ، وہ سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ اردوان نہیں ہیں ۔ دوم ؛ وہ اپنے شخصی اقتدار کے تحفظ کے لیے مزاحمت کریں اور سماج سے بہت پیچھے رہ جائیں ۔ فعل ماضی بن جائیں۔

میرے پیش نظر سوال اب اور ہے ۔ ترکی کے سماج نے جس حریت فکر کا مظاہرہ کیا ہے کیا پاکستان کا معاشرہ بھی اس بھاری پتھر کو اٹھا پائے گا ؟ کیا ہمارا فکری ارتقاء رک چکا؟ کیا ہمارا سماج ایک جوہڑ بن چکا ؟ کیا ہم نئی قیادت پیدا نہیں کر سکتے ؟ کیا ہم نے زندگی کا حاصل یہی سمجھ لیا ہے کہ چند سیاسی خانوادوں کی مجاوری کرنا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے