قبرستان میں’’ڈانس پارٹی‘‘

قبروں کے ساتھ میری دلچسپی میں اضافے کا ’’کریڈٹ‘‘ میرے دوست رانا ریاض کو جاتا ہے، رانا صاحب ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہیں اور قبروں کے ساتھ ان کی دلچسپی ریٹائرمنٹ سے اگلے روز ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس وقت سے اب تک وہ روزانہ قبرستان جاتے ہیں۔ قبروں سے میری اپنی دلچسپی بھی پہلے سے موجود تھی مگر جب رانا صاحب سے ملا تو اس دلچسپی میں اضافہ ہوا، تو میں رانا صاحب اور قبروں کے مزید نزدیک ہوتا چلا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہم دونوں بھائی جب بھی اکٹھے ہوتے ہیں ہمارا واحد موضوع قبریں ہی ہوتی ہیں بلکہ اب معاملہ قبروں کی زیارت تک نہیں رہ گیا بلکہ اب ہم نیو ائیر نائٹ بھی کسی اچھے سے قبرستان میں مناتے ہیں۔

کچھ عرصہ سے ہم روزانہ فون پر میٹنگ پوائنٹ طے کر لیتے ہیں۔ مثلاً فلاں قبرستان میں سانپوں والی قبر کے پاس یا بچھوئوں والی قبر کے اردگرد یا اس طر ح کی کوئی اور نشانی بتاکر ہم وقت مقررہ پر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ میں اور رانا صاحب قبرستان کے بھانبڑ چوک میں ایک شکستہ قبر پر بیٹھے اپنے کاروباری امور کو ’’ڈسکس‘‘ کر رہے تھے کہ ناگہاں میری نظر آگ کے اس بھانبڑ پر پڑی۔

میں نے دیکھا کہ ایک بدنام زمانہ رقاصہ بہت وارفتگی کے عالم میں رقص کر رہی تھی۔ میں نے رانا صاحب کو بھی اس طرف متوجہ کیا، جب یہ زندہ تھی رانا صاحب کے ان سینکڑوں معتقدین میں سے ایک تھی جن پر رانا صاحب کی خاص نظر کرم تھی، رانا صاحب نے نظر بھر کر اس کی طرف دیکھا اور پھر مجھے مخاطب کر کے کہا ’’برادر یہ رقص نہیں کر رہی شعلوں کی حدت سے تھرک رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان کرے‘‘۔ دریں اثنا قبرستان کا گورکن قریب سے سلام کر کے گزرنے لگا تو میں نے اسے روکا اور پوچھا ’’کیا بھانبڑ چوک میں اس طرح کے رقص روزانہ ہوتے ہیں یا ایسے کبھی کبھار ہوتا ہے؟‘‘

بولاؒ:نئیں بابو جی یہاں سب کو باری باری اس طرح کا ڈانس کرنا پڑتا ہے، کل ایک ذخیرہ اندوز یہاں پھڑکتا نظر آیا تھا۔ اس سے پہلے جعلی دوائیاں بنانے والے منشیات فروش، بے ایماں حکمران، ملک توڑنے والے سیاستدان اور جرنیل، کفر اور قتل کے فتوے دینے والے مولوی، منافع خور تاجر اور ہم غریبوں کی زندگیاں عذاب بنانے والے بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی میں نے یہاں شعلوں کی لپیٹ میں تڑپتے دیکھا ہے‘‘۔ اس قبرستان میں ہم پہلی دفعہ آئے تھے، چنانچہ قبروں سے ہمارے عشق سے وہ واقف نہیں تھا۔ اس نے ہمیں مخاطب کیا اور پوچھا ’’آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ میں اخبار میں لکھتا ہوں اور میرا دوست ایک بہت بڑا افسر رہا ہے۔ اس پر وہ ہنسا اور بولا ’’اس کا مطلب ہے کہ چند برسوں بعد آپ بھی اسی بھانبڑ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آئیں گے‘‘۔

یہ کہہ کر وہ بھاگ کھڑا ہوا کہ وہ جانتا تھا کہ اس نے کس درجہ بدتمیزی کی ہے اور کن سے کی ہے، تاہم اس تجربے کا ہمیں بہت زیادہ فائدہ ہوا کیونکہ صورتحال کی سنگینی دیکھ کر ہم وہاں سے سیدھا بہاولپور روڈ پہنچے جہاں قبروں کے حوالے سے دستیاب ہر قسم کی سہولتوں پر مشتمل لاہور کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ دکاندار نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور کہا ’’میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘ رانا صاحب بولے:ہم نے اپنی قبروں کا ڈیزائن پسند کرنا ہے۔ دکاندار ہماری بات سے حیران نہیں ہوا۔ اسے شاید ہماری ناگہانی موت کا ہم سے بھی زیادہ یقین تھا۔ وہ اندر سے ایک کیٹلاگ اٹھا لایا، سبحان اللہ کیسی کیسی عالیشان قبریں تھیں۔

ہم دونوں نے اپنے لئے دو الگ الگ ڈیزائن پسند کئے۔ ہم نے دکاندار سے کہا ’’باقی سب ٹھیک ہے، بس یہ قبریں اندر سے کافی کشادہ ہونی چاہئیں، دوسرے ان میں ائیر کنڈیشنر کی بھی ضرورت ہوگی‘‘۔ وہ ہم سے مرعوب ہونا شروع ہو گیا تھا۔ بولا:سر ائیر کنڈیشنر دیوار میں لگوانا پسند کریں گے یا اسپلٹ یونٹ چلے گا، رانا صاحب نے کہا ’’اسپلٹ یونٹ ٹھیک ہے‘‘۔ دکاندار نے ایک بار پھر ہمیں مخاطب کیا اور بولا ’’اس کے علاوہ جو سہولت آپ چاہتے ہیں وہ بھی بیان فرما دیں‘‘۔ رانا صاحب نے کہا:بس ایک آخری سہولت اور وہ یہ کہ اس میں ایک چور دروازہ بھی ہونا چاہئے تاکہ فرشتوں کو باتوں میں لگا کر ہم وہاں سے کھسک سکیں۔

رانا صاحب نے ابھی اپنی بات مکمل ہی کی تھی کہ دکاندار کا چہرہ بدلنا شروع ہو گیا، اس کے چہرے پر موٹے موٹے نقوش ابھر آئے اور اس کا قد بڑھتے بڑھتے دکان کی چھت سے جا لگا، پھر اس کی گرجدار آواز گونجی ’’تم سمجھتے ہو کہ مرنے کے بعد بھی اپنے جرائم سے بچنے کے لئے تم وہ ہتھکنڈے استعمال کر سکو گے جو تم دنیا میں استعمال کرتے رہے ہو، یہاں سے کان لپیٹ کر نکل جائو اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھو ورنہ میں تمہیں یہیں بھسم کردوں گا اور تمہیں دفن ہونے کے لئے دو گز زمین بھی نہیں مل سکے گی‘‘۔

رانا ریاض بے ہوش ہو گیا تھا اور میری آواز میرے حلق میں پھنس کر رہ گئی تھی۔ بالآخر بہت کوشش کے بعد میں نے اپنی آواز کی لرزش پر قابو پایا اور پوچھا:آپ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا میں وہ نہیں ہوں جو تمہیں ابھی نظر آرہا تھا، میں صرف وہ ایک آواز ہوں جو تم جیسے لوگ اپنی زندگی میں سننا نہیں چاہتے، یہ آواز اپنے ساتھ لے جائو۔ ہم دونوں نے وہاں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے