بشارالاسد کا نامعلوم مقام سے فوجیوں سے ٹیلیفونک رابطہ

شام کے متنازع صدر بشارالاسد 13 دن منظرعام سے غائب رہے۔ انہیں کسی تقریب میں دیکھا گیا اور نہ ہی ان کی جانب سے کوئی بیان جاری کیا گیا تھا۔ کئی روز کے بعد کل بدھ کو ان کی ایک خبر سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے وفادار فوجی افسران سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا ہے اور حلب کا اہم ہوائی اڈہ باغیوں سے واپس لینے پر انہیں مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی "سانا” نے صدر اسد کی اپنے وفادار فوجی افسران سے ٹیلیفونک گفتگو کی خبر کی تصدیق کی ہے تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا یہ ٹیلیفون انہوں نے دمشق سے کیا تھا یا اللاذقیہ سے کیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق صدر بشارالاسد نے اپنے وفادار دو فوجی افسران کو حلب کا اہم فوجی اڈہ خوریز باغیوں سے واپس لینے پر انہیں مبارک پیش کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ خیال رہے کہ شام میں روسی فوج کی مداخلت کے دو ماہ کے بعد شامی فوج کی یہ پہلی اہم ترین پیش رفت ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ روسی جنگی طیاروں کی باغیوں کے مراکز پر کارپٹ بمباری سےسیکڑوں عام شہری تو مارے گئے ہیں مگر اس کا شامی فوج کو زمینی پیش قدمی کے حوالے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔

دفاعی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شامی فوج اور اس کی حلیف روسی فوج نے حلب میں "خوریز” اڈے کو واگزار کرانے کے لیے جس وحشیانہ طریقے سے بمباری کی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ صرف ایک فوجی ہوائی اڈے کی واپسی کے لیے اتنی شدید بمباری کی گئی ہے اگر پورے حلب کو باغیوں سے چھڑانے کے لیے بمباری کی گئی تو شہر کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور ہزاروں افراد کے مارے جانے کا خدشہ ہے۔

خیال رہے کہ صدر بشارالاسد 28 اکتوبر کو فرانس سے آئے ایک وفد سے ملاقات کے دوران منظرعام پر آئے تھے۔ اس کے بعد وہ منظرعام سے غائب تھے۔ انہوں نے نہ تو کوئی بیان جاری کیا اور نہ ہی کوئی صدارتی فرمان جاری کیا گیا۔ ان کے ٹھکانوں کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہوئی کہ آیا وہ کہاں ہیں۔ تاہم دمشق میں ان کے ممکنہ ٹھکانوں کو کئی بار راکٹوں سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

گذشتہ روز یہ اطلاعات ملی تھیں کہ بشارالاسد خوریز فوجی اڈے کا معائنہ کرنے کے لیے حلب جانا چاہتے ہیں مگر بعد میں سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر ان کا دورہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے