رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ درویش لاہوتی ایک دوست سے مل کر پنج ستارہ ہوٹل کی لفٹ سے نیچے اتر رہا تھا۔ کانچ کا شفاف عمودی کابک زمیں تک پہنچا تو عین سامنے وہ صاحب کھڑے تھے۔
ارے وہی جن کے بارے میں گزشتہ برس 26جنوری کو سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ اے ایس آئی بھرتی ہونے والا معمولی اہل کار 2011میں ملیر کراچی کا ایس ایس پی تعینات ہوا تو سات برس میں 745جعلی پولیس مقابلوں میں کل ملا کے پاکستان کے ساڑھے چار سو شہری ماورائے عدالت قتل کئے۔
نجی عقوبت خانے بنائے، زمینوں پر قبضے اور ریتی بجری کے کاروبار میں شہرت پائی۔ عدالت عظمیٰ نے طلب کیا تو غائب ہو گئے۔ بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کی۔ پھر ایک صبح بڑی سی چمچماتی گاڑی سے اتر کر محافظوں کی معیت میں ہنستے مسکراتے عدالت میں آئے اور حسب منشا احکامات وصول کر کے کراچی لوٹ گئے۔
کراچی شہر نے کیا قسمت پائی ہے۔ شاعر نے تو ’ہوائیں بیچنے، رنگ و بو نیلام کرنے‘ کا امکان ظاہر کیا تھا۔ کراچی پر اترنے والے چنگیزی لشکر نے مٹی، پانی اور گھاس کے قطعات تک بیچ ڈالے، ساحل کی موجیں رہن رکھ دیں، تہذیب کا سہاگ لوٹ لیا، ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی ہنسی قتل کر دی۔ یہ صاحب رواں برس ملازمت سے مستعفی ہو گئے تھے۔
غالب امکان ہے کہ سررشتہ خدمات سے وابستگی ہنوز باقی ہے۔ قہر درویش بر جان درویش کی تصویر بن کر انہیں دیکھتے ہوئے چند قدم چلا تھا کہ ہوٹل کے دو ملازم دکھائی دیے جو معنی خیز نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہے تھے، قریب سے گزرتے ہوئے بے اختیار پوچھا، کیوں بھائی پہچان لیا؟
ایک نے مسکرا کر کہا ’جی‘۔ میں نے سوچا، کہاں بھائی، صرف چہرہ پہچانا ہے، کاش کھیل بھی پہچان لیتے۔ یہ وہی ہے نا جسے ایک بزعم خود عقل کے پتلے نے ’اپنا بچہ‘ کہا تھا۔ اور پھر زبان کی اس ’لغزش‘ پر معذرت کی تھی۔ یہ زبان کی لغزش نہیں، طاقت کی تفہیم میں خلل تھا۔ جسے آلہ کار سمجھا تھا، وہ بدستور آزاد ہے، جسے سرپرستی کا دعویٰ تھا، وہ جیل میں پڑا ہے۔
دھرتی سے قانون کی بالادستی اٹھ جائے تو شہری بے دست و پا ہو جاتے ہیں۔ کتاب دستور بے توقیر ہو جائے تو ضمیر فروشوں، طالع آزماؤں اور جرائم پیشہ گروہوں میں ایک بے رحم کھیل شروع ہوتا ہے جو کسی اصول ضابطے کا پابند نہیں ہوتا، مسلسل حادثات سے مرتب ہونے والا جلوس بے تماشا سمجھیے۔
ایک پوری نسل کی عزت نفس سے کھیلنے والا امیر محمد کالاباغ کراچی کا ضمنی انتخاب ہار کے میانوالی پہنچ جاتا ہے۔ مادر ملت کی شان میں بدزبانی کرنے والا دو برس بعد حالت علالت میں یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ جے اے رحیم پر تشدد کرنے والے اہل کار کو نقد انعام سے نوازنے والا پنڈی جیل کے گمنام اہل کاروں کی نگرانی میں پھانسی چڑھ جاتا ہے۔
رفقائے کار کے سہارے قوم کی مٹی پلید کرنے والا آگ کی لپیٹ میں آیا تو رفیق کار نے زمیں پر اتر کر موت کی تصدیق تک گوارا نہیں کی۔
1990میں قوم کی رائے کو آئی جے آئی کے تابوت دفن کرنے کا دعویدار 1993کے موسم خزاں میں عہدہ صدارت کی امید باندھے اسلام آباد آیا تو کاغذات نامزدگی کی تائید کرنے والا بھی میسر نہ آ سکا۔
مرتضی بھٹو کے قتل پر ٹھٹھا کرنے والا دسمبر 1997میں مستعفی ہوا تو کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوئی۔ موت کے پروانے جاری کرنے والا خود ساختہ پیر صاحب ایک ہی رات میں قائد تحریک سے بانی تحریک رہ گیا۔ جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، مہینوں اسپتال کے کمرے میں چھپا رہا۔
کمرہ عدالت میں گواہوں کی موت کی درست پیش گوئیاں کرنے والا مظفر گڑھ کی ایک سڑک پر ساتھیوں سمیت اوندھا پڑا تھا۔ اسی تصویر کا دوسرا پہلو دیکھئے۔ ورلڈ بینک سے آنے والے محمد شعیب نومبر 58سے مارچ 65تک وزیر خزانہ رہے، مستعفی ہو کے دوبارہ ورلڈ بینک چلے گئے۔
واشنگٹن میں موت پائی۔ محبوب الحق ورلڈ بینک سے آئے، ایوب اور ضیا حکومتوں میں خزانے کے امور دیکھتے رہے، نیویارک میں موت پائی۔ نگران وزیراعظم معین قریشی ورلڈ بینک سے آئے۔ منصب ختم ہوا تو واپس ترجیحی وطن چلے گئے، واشنگٹن میں موت پائی۔ شوکت عزیز کا سٹی بینک سے ورود ہوا، وزیر خزانہ اور وزیراعظم رہے، میعاد منصب ختم ہوتے ہی پاکستان چھوڑ گئے، دبئی میں رونق افروز ہیں۔
ان دنوں حفیظ شیخ اور باقر رضا کا سکہ چلتا ہے۔ یہ رہے ریاست کے نام پر جمہور کا حق حکمرانی غصب کرنے والوں کے کوائف۔ اب صحرائے ظلمت کے ان مسافروں کی خبر لیں جنہوں نے عوامی تائید سے قومی رہنمائی کرنا چاہی۔ لیاقت علی پنڈی میں شہید ہوئے، عبدالغفار خان نے 18برس قید کاٹی۔
حسین شہید سہروردی نے سیاست میں واپسی کا ارادہ باندھا چنانچہ بیروت میں مردہ پائے گئے۔ مادر ملت نے پرچم اٹھایا تو اسفل مخلوق سے طعن و دشنام کی توہین سہی۔ حسن ناصر، نذیر عباسی اور حمید بلوچ تاریک راہوں میں مارے گئے۔ مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا تو مجیب الرحمن پھانسی پا جاتے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، بےنظیر بھٹو نے شہادت پائی۔ آصف علی زرداری نے جرم بےگناہی میں گیارہ برس قید کاٹی۔ نواز شریف پر جلاوطنی مسلط کی گئی۔ زرداری اور نواز شریف کی عقوبت جاری ہے۔ آمریت کے جنگل سے دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک جدوجہد کی راہ سلوک ہے اور دوسری قوم سے بدسلوکی کی پگڈنڈی جہاں گام گام پر راہ زنی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
قومی تعمیر کی بنیاد لطیفہ غیبی، معجزہ مسیحا اور مکافات عمل جیسے موضوعی اور ناقابل پیش گوئی مظاہر پر نہیں رکھی جاتی۔ اس کے لئے واضح نصب العین طے کیا جاتا ہے، ہدف کی جانب پیش رفت کی قابل تصدیق حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے۔ قومی اثاثوں کی توقیر کی جاتی ہے۔تنوع کا احترام کیا جاتا ہے۔
اختلاف رائے کو ملک دشمنی اور سیاسی سرگرمی کو جرم گردانا جائے، تو قوم کی توانائی مفلوج ہو جاتی ہے۔ معیشت کی شرح نمو 2.4فیصد رہ جاتی ہے۔ قوم ایف اے ٹی ایف کی ٹکٹکی سے بندھ جاتی ہے۔
بے اختیار شہری راؤ انوار کی آزادی اور رانا ثنااللہ کی اسیری میں الجھ جاتے ہیں۔ وہ سمجھ نہیں پاتے کہ اے ٹی ایم توڑنے والے صلاح الدین کی موت کے قضیے میں حافظ سعید کا رخ انور کیسے نمودار ہوتا ہے۔ شہری اقتدار کے شجرے میں در آنے والی فی سے بے خبر ہیں البتہ درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے کہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو گئی ہیں۔