سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف کے حوالے سے 7 رکنی بینچ کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جو چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق منصوبے کے تحت لوٹ مار، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے، حکومت اور عوام میں دہشت پھیلانا اور جانی و مالی نقصان دہشت گردی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی، سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد کارروائی، فرقہ واریت پھیلانا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا بھی دہشت گردی ہو گی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا، پولیس، افواج اورسرکاری ملازم کے خلاف پر تشدد واقعے میں ملوث ہونا، جلاؤ گھیراو، بھتہ خوری، یا مذہبی منافرت دہشت گردی میں شمار نہیں ہوگا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں دہشت گردی سے متعلق کئی ایسے جرائم بھی شامل کر دیے گئے جن کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اسی لیے عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کو بھی دہشت گردی میں شامل کیا گیا جس سے دہشت گردی کے اصل مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے۔
بینچ نے اپنے 60 صفحات پر مشتمل فیصلے میں پارلیمنٹ کو سفارش کی ہے کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے نئی تعریف کا تعین کرے۔