پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف تمام اپوزیشن کا مطالبہ ایک ہے لیکن پیپلز پارٹی کسی دھرنے میں شریک نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت عوام نہیں کسی اور کی خواہش پر بنی ہے، پیپلزپارٹی نے پہلے دن سے مارچ اور جلسے کی حمایت کی لیکن دھرنے میں شمولیت کی گنجائش نہیں ہے۔
بلاول بھٹو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘جلسے اور مارچ کے علاوہ دھرنے میں شرکت سے متعلق اگر پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی پالیسی کا جائزہ لے گی تو فیصلہ حتمی ہوگا’۔
انہوں نے سانحہ تیز گام پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر استعفیٰ دیں۔
چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ سانحہ تیز گام کی تحقیقاتی ہونی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت پر جو تنقید ہوری ہے اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت منتخب نہیں بلکہ سلیکٹڈ ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت شہریوں کے سماجی اور آئینی حقوق پامال کررہی ہے، ہم ناصرف حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں بلکہ اس کی آئینی حیثیت پر بھی اعتراض اٹھاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کی طرح صوبہ سندھ میں بھی کمی اور کوتاہیاں ہیں لیکن بہت ضروری ہیں کہ حکومتیں آئینی ہوں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر پر تاریخی حملہ ہوا لیکن وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کھول کر کشمیری بھائیوں کے لیے کیا پیغام دیا؟۔
انہوں نے حکومت وقت کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کا مشورہ دیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ‘عوام سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا سودا کرلیا گیا تاہم وزیراعظم عمران کو عوام کے خدشات دور کرنے چاہیے’۔
دوسری جانب جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے سے متعلق دی گئی ڈیڈلائن کے بعد کی حکمت عملی پر غور کے لیے جے یو آئی (ٖف) کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس جاری ہے۔
علاوہ ازیں اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ڈی چوک جانے کی مخالفت کے بعد کی صورتحال پر غور کیا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں رہبر کمیٹی کی جانب سے احتجاج کو ملک گیر پھیلانے، شٹر ڈاون اور سڑکیں بند کرنے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔