عصر حاضر کے شرلاک ہومز کی خدمت میں

کچھ دن قبل کتاب ’’کامیابی کا مغالطہ‘‘ کے بارے میں اپنے تاثراتکا اظہار کیا تھا۔ اب کتاب کے مصنف عاطف حسین نے جوابی مضمون میں اس تبصرے پر رائے زنی کرتے ہوئے کچھ سوالات کیے ہیں، جن کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

* عاطف حسین نے لکھا ہے کہ ’’قسمت کا کردار‘‘ والے باب میں درج باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کامیابی میں محنت کے کردار سے انکار کر رہے ہیں، بلکہ وہ باب دراصل کامیابی میں قسمت کا کردار ثابت کرنے کیلئے لکھا گیا۔ چلیں اس طرح بات واضح کرکے انہوں نے میری غلط فہمی دورکر دی۔ دراصل اس باب میں کچھ ایسی باتیں شامل ہیں، جن کی وجہ سے مجھے یہ غلط فہمی ہوئی۔ مثال کے طور پر اس باب میں ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں:

’’اگر کچھ لوگ ایک ہی کام کریں تو کیا ملنے والی کامیابی کا انحصار کیا ان کی محنت، ٹیلنٹ اور لگن پر ہے یا یہ محض قسمت کا کھیل ہے؟ یہاں بھی ریسرچ، موٹیویشنل سپیکرز کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے کیوں کہ اس کے نتائج سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض قسمت کا کھیل ہے۔‘‘ (صفحہ 49) اسی طرح کامیابی کو اتفاقات کا کھیل قرار دیتے ہوئے انہوں نے کامیابی کی randomness کو پنکھے کی ہوا میں اڑنے والے کاغذوں سے بھی تشبیہہ دی ہے، (صفحہ 52) جس کا ذکر اپنے تبصرے میں کر چکا ہوں۔ عرض یہ ہے کہ مندرجہ بالا باتوں کے بعد ایک نوٹ کی صورت یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ مصنف کا اپنے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے تو مجھے کبھی یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔

مصنف کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ میں ایک طرف کامیابی میں قسمت کا کردار تسلیم بھی کرتا ہوں اور دوسری طرف ان کے خیالات پر تنقید بھی جاری رکھتا ہوں۔ عرض ہے کہ مصنف کی رائے سے جس حد تک مجھے اتفاق ہے اس کا ذکر میں نے کیا ہے، اور جہاں مبالغہ محسوس ہوا وہ بیان کیا ہے۔

* مجھے خوشی ہے کہ میرے تبصرے پر ایک جگہ عاطف حسین کو ہنسی بھی آئی، لیکن افسوس ہے کہ وہ بات سمجھ نہ سکے۔ میں نے لکھا تھا کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ سب کچھ حالات اور قسمت کی وجہ سے ہو رہا ہے، اس میں آدمی کا کوئی کردار یا کنٹری بیوشن نہیں ہے (جیسا کہ مصنف کا خیال ہے) تو پھر اس سوچ کے تحت ہم قائداعظم کی قیام پاکستان اور عمران خان کی کرکٹ کے لیے خدمات کو کیونکر تسلیم کریں اور ان کی قدر کریں؟ سوال پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ کیا مصنف کے خیالات سے ہم آہنگ کوئی اچھی وجہ موجود ہے، جس کی وجہ سے ان شخصیات کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تحسین کی جائے۔ لیکن مصنف کے جواب سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کسی کی خدمات کو محض اس لیے تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ قائداعظم یا عمران خان ہیں، اس کیلئے دلیل آنی چاہیے۔ اچھی بات ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں ہوائی جہاز سے سمارٹ فون تک جتنی ایجادات ہوئی ہیں، وہ انسانوں نے کس اختیار کے تحت کی ہیں؟ کیونکہ مصنف کے نزدیک تو، ’’اللہ نے انسان کو صرف اخلاقی معاملات میں اختیار دیا ہے۔‘‘ (صفحہ 48)

* مصنف کا کہنا ہے کہ کتاب کے باب ’’خیالات کی طاقت‘‘ میں منفی خیالات اپنانے کا درس نہیں دیا گیا بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ دوسرے جذبات، احساسات اور ذہنی حالتوں کی بھی مخصوص حالات میں اپنی ایک افادیت ہے۔ عرض ہے کہ یہ سب جذبات فطری طور پر انسان میں موجود ہیں اور فطری طور پر ہی برؤے کار آتے ہیں۔ کوئی موٹیویشنل سپیکر یا سیلف ہلیپ کی کتاب کسی ایک چیز پر زور دے کر انسان سے دوسرے جذبات ختم نہیں کر سکتی، اس لیے مصنف خاطر جمع رکھیں کہ ہمارے ہاں منفی خیالات، مایوسی اور افسردگی جیسے جذبات کا فقدان نہیں ہو گیا اور نہ ہی مثبت سوچ خطرناک حد تک ٹھونسی جا چکی ہے۔ میں نے تو زیادہ تر لوگوں میں بے چینی، عدم اطمینان اور مایوسی ہی محسوس کی ہے۔ ایسے میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کے مسائل کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے سامنے تسلی اور امید کے دو بول بولے جائیں۔ مثبت خیالات پر زور دے کر اور لوگوں کی توجہ ان کے کام پر مرکوز کرا کے ان سے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں کسی میں انفرادی طور پر ہر دو طرح کے جذبات کا توازن ٹھیک نہیں ہے، تو اسے اس کی صورتحال کے مطابق treat کرنا چاہیے۔

* میں نے لکھا تھا کہ مصنف کتاب میں ایک جگہ تو کامیابی کو محض اتفاقات اور حالات کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں، لیکن دوسرے مقام پر بہتر نظام اور تعلیم کو بھی کامیابی کی وجہ بتاتے ہیں۔ اب مصنف نے بتایا کہ بہتر نظام اور تعلیم کے مواقع بھی تو دراصل ’’حالات‘‘ ہی ہیں، اس لیے ان کی بات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ پہلے تعلیم پر بات کر لیتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ ’’تعلیم‘‘ اور ’’تعلیم کے مواقع‘‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور مصنف نے متعلقہ جگہ ’’تعلیم‘‘ کو ہی کامیابی کے لیے ایک اہم فیکٹر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ وہ ذکر تو ’’تعلیم کے مواقع‘‘ (یا دوسرے الفاظ میں حالات) کا کر رہے تھے لیکن اس کی جگہ لفظ ’’تعلیم‘‘ لکھ گئے۔ پڑھنے والے کتاب کے صفحات 96 سے 98 تک میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ مصنف نے کس شد و مد سے کامیابی میں تعلیم کے کردار کی وکالت کی ہے، جس سے مجھے بھی اتفاق ہے۔ ’’تعلیم کے مواقع‘‘ کے ذریعے تو آپ کیلئے زیادہ سے زیادہ ایک امکان کا دروازہ کھل جاتا ہے، لیکن اس میدان میں آپ کس حد تک آگے جاتے ہیں، اس کا دارومدار دوسرے عوامل کے علاوہ آپ کی قابلیت، محنت اور کمٹمنٹ پر ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کامیابی اس قدر random طریقے سے ملتی ہے، جیسا کہ مصنف کا خیال ہے، پھر تعلیم پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے اور یہی سوال بہتر نظام سے متعلق بھی ہے۔ نظام کسی گھر کا ہو یا کسی ادارے اور معاشرے کا، یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر انسان کا کنٹرول نہ ہو۔ انسان نظام کو بہتر بھی بنا سکتا ہے اور خراب بھی کر سکتا ہے، اگرچہ تبدیلی کی نوعیت اور سطح کے مطابق اس کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔

* عاطف حسین نے لکھا ہے کہ میں نے ڈاکٹر اسٹیفن کاوی کی مشہور کتاب پر ان کی تنقید کا بھی بہت برامانا ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ مجھے کتاب پر ان کا اعتراض نامعقول لگا، جس کا اظہار میں نے تبصرے میں بھی کر دیا۔ اگر ان کے اعتراض میں کوئی وزن محسوس ہوتا، ان کی تنقید پر ’’بہت اچھا بھی مانتا۔‘‘ مصنف نے اس ضمن میں مجھے کچھ سمجھانے میں اپنی معذوری اور بے بسی کا اظہار بھی کیا ہے، کیونکہ یہ طالب علم ’’اخلاق کو محض اخلاق ہونے کی بنا پر اختیار کرنے اور دنیاوی فائدے کیلئے اختیار کرنے کے مضمرات کا فرق نہیں سمجھ پایا۔‘‘ اپنے تبصرے میں عرض کیا تھا کہ اخلاقی اصولوں پر عمل صرف دنیاوی فائدے کیلئے کیا جائے تو یہ غلط بات ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان اخلاقی اصولوں سے کچھ فائدہ حاصل ہوتا ہے تو وہ فائدہ بھی حاصل نہ کیا جائے۔ مصنف کو کوئی اعتراض ہے تو اس کے متعلق اپنی رائے بیان کریں۔ مصنف کے اعتراض کو سمجھا جائے تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر کاوی ان اخلاقی اصولوں کو بیان تو ضرور کرتے، لیکن انہوں نے یہ کیوں کہا کہ یہ فائدے کی چیز ہے، ان اصولوں پر عمل کر کے تم بھی فائدہ حاصل کر لو۔ اس سے مصنف کو خدشہ ہے کہ پڑھنے والوں میں مادہ پرستی پھیلے گی اور بناوٹ جنم لے گی۔ میرے خیال میں پڑھنے والے پر لازم نہیں آتا کہ وہ ان اخلاقی اصولوں کو دنیاوی فائدے کی نیت سے ہی اختیار کرے گا اور اس لیے اختیار نہیں کرے گا کہ یہ اخلاقی اصول ہیں۔ اس لیے اس کتاب کو ’’خطرناک تر‘‘ یا ’’تباہ کن نتائج کی حامل‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا، جیسا کہ مصنف نے اس کتاب کے متعلق اپنا دعویٰ کیا ہے۔

* میں نے اپنے تبصرے میں ہرگز اعتراض نہیں کیا کہ مصنف نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کی رائے کو کیوں شامل کیا۔ بلکہ مجھے تو خوشی ہوئی کہ مصنف نے اپنے سے واضح طور پر مختلف نقطہ نظر کو بھی اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ عرض صرف یہ کیا تھا کہ مصنف نے کتاب کے ’’پیش لفظ‘‘ میں رواروی میں لکھ دیا ہے، ’’جن اہل علم نے میرے خیالات کی تائید فرما کر مجھے عزت بخشی میں تہہ دل سے ان کا ممنون ہوں۔ ان کی تحریریں کتاب میں شامل ہیں۔‘‘ گزارش ہے اب اس سوال میں پناہ لینے کے بجائے کہ ’’مصنف نے کہاں دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ان کے خیالات کی ’’مکمل‘‘ تائید کی ہے‘‘ ، مصنف کو مان لینا چاہیے کہ وہ کتاب پر رائے دینے والوں کی تائید کا ذکر کیے بغیر ان کے شکریے پر ہی اکتفا کر لیتے تو زیادہ اچھا تھا، یہ پڑھنے والے خود دیکھ لیتے کہ کون سے صاحب علم نے مصنف کے کن خیالات کی کتنی تائید فرمائی ہے۔

* کتاب کے ابتدائی صفحات میں مصنف نے موٹیویشنل لٹریچر اور سپیکرز سے اپنے تعارف سے لے کر اپنی بیزاری تک کا مختصر احوال بتایا ہے۔ اس بنیاد پر میں نے رائے قائم کی تھی کہ مصنف اپنے ذاتی تجربات کی وجہ سے سیلف ہیلپ لٹریچر اور موٹیویشنل سپیکرز کے متعلق ردعمل کا شکار ہوئے اور اس لیے جب مصنف نے سیلف ہیلپ لٹریچر/ موٹیویشنل سپیکرز کے مبالغے اور مغالطے کی داستان سنانے کا ارادہ کیا تو خود مبالغے اور مغالطے کا شکار ہو گئے۔ ہر آدمی اپنے تجربات، مشاہدات اورجذبات کی روشنی میں ہی اپنی رائے بناتا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے کوئی کہے کہ میں نے پہلے کتاب پر جو تبصرہ کیا اور اب یہ حالیہ تحریر لکھی ہے وہ اپنے تجربات اور جذبات کی وجہ سے لکھی ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے، جذباتی نہیں۔ لیکن میری اس بات پر مصنف نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اور اس کی وجہ بھی بڑی دلچسپ ہے: کسی اور صاحب نے بھی میرا مضمون شائع ہونے سے کئی دن پہلے اسی رائے کا اظہار کیا تھا، چنانچہ مصنف کو اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دیر نہیں لگی کہ ’’مضمون کے شروع میں دیا گیا غیر جانبداری کا تاثر درست نہیں اور اس تبصرے کے پیچھے ’’توازن‘‘ کی محبت کے علاوہ بھی کچھ کارفرما ہو سکتا ہے۔‘‘

میں تحریر پڑھنے والوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس لاجواب ذہانت پر ہمارے پیارے مصنف اور عصر حاضر کے شرلاک ہومز کے احترام میں کھڑے ہو کر ان کو ایک زوردار سلیوٹ کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے