یاحسینؓ یاحسین ؓ

صوفی برکت علی فرماتے ہیں، کہ یہ غم شہادت کا نہیں، پامالی حرمت کا ہے، موت کا نہیں تقدس کی تضحیک کا ہے، جب یاد آتی ہے رو لیتے ہیں،یہ رونا میرا رونا نہیں، ہر صاحبِ دل کا رونا ہے، جنگل کے ہر شجر و حجر کا رونا ہے، جو کبھی نہیں رکتا، دل جب گرد آلود ہونے لگتا ہے تو امام حسینؓ کے فراق میں بہے آنسو ئوںسے دھو کر شفاف کرلیتےہیں، طریقت میں اسے غسلِ عصیاں کہتے ہیں اور غسلِ عصیاں میں شفا ہوتی ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا!

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اہل کوفہ نے امام حسینؓ کو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی، اہل کوفہ نے غداری کی اورامام حسینؓ کا ساتھ نہ دیا۔

امام حسین کوصحابہ نے مشورہ دیا کہ، کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے، اس کی افواج اور سامان موجود ہے، کوئی قابل اعتماد آدمی ہمارا وہاں نہیں، اسی لئے آپ مکہ مکرمہ میں ہی رہیں، عبداللہ ابن زبیر نے عرض کیا، آپ مکہ میں اپنی خلافت کی کوشش کریں، ہم مدد کریں گے، امام حسینؓ نہ مانے، تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے کوفہ کی بجائے یمن جانے کا کہا، پھر بھی نہ مانے ،تو آپ نے عرض کیا، اگر کوفہ کاسفر ضروری ہے، تو پہلے کوفیوں کو کہیں، کہ وہ یزید کے حاکموں کو باہر نکالیں۔ فرمایا’’ میں جانتا ہوں ،کہ تم میرے خیر خواہ ہو، لیکن میں عزم کر چکا ہوں،‘‘ عرض کیا، خاندان کو ساتھ لیکر نہ جائیں، کہیں حضرت عثمان غنیؓ کی طرح خاندان کے سامنے شہید نہ کر دئیے جائیں،3 ذوالحج 60 ھ کو مکہ مکرمہ سے کوفہ روانہ ہوئے، راستے میں شاعر فرزوق نے امام حسینؓ سے عرض کی ’’لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں‘‘ مقام بیضہ پر آپ نے خطبہ دیا۔

’’لوگو! رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرمات الٰہی کے حلال کرنے والے، خدا کا عہد توڑنے والے، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا، تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جائو، ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے، ملک میں فساد پھیلایا ہے، حدود الٰہی کو معطل کر دیا ہے، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی کو حرام کر دیا ہے، اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے‘‘ قافلہ 2 محرم الحرام61 ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں پہنچا۔

جنگ کے آغاز میں امام حسینؓ نے فرمایا، ’’اے لوگو! جلدی نہ کرو، سنو! مجھے تمہیں سمجھانے کا حق ہے، اسے پورا ہونے دو، آنے کی وجہ سنو اور مجھ سے انصاف کرو گے تو خوش بخت انسان ہو گے، اگر تم میری بات سننے کے لئے تیار نہ ہوئے، تو تمہاری مرضی، میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو، اللہ میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے‘‘ اسی دوران خیموں سے خواتین اہل بیت کی رونے کی آواز آئی، آپ رُکے اپنے بھائی عباس کو خواتین کو چپ کرانے کے لیے بھیجا، پھر فرمایا’’ لوگو! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو، کہ میں کون ہوں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟

کیا میں تمہارے نبی ﷺکا نواسہ نہیں، کیا تمہیں رسول اللہﷺ کا وہ قول یاد نہیں کہ حسنؓ و حسینؓ نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو، تو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں، جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ ﷺکی حدیث سنی ہے، تم مجھے بتاؤ، اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے‘‘ لیکن ان بدبختوں پر کوئی اثر نہ ہوا، صرف حُر بن یزید تمیمی پر اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے الگ ہو گیا کہ ’’یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے، میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے، خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے، جنگ کا آغاز ہوا، اہل ایمان نے پوری ایمانی قوت سے مقابلہ کیا۔

قافلہ عشق ومحبت کے مسافر میدان میں اترے اور شہید ہوئے، بعد میں دشمنوں نے ہر طرف سے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا، امام حسینؓ تنہا میدان میں ڈٹے رہے، بڑی بے جگری سے لڑے، بدبختوں نے آپ کو نرغہ میں لے لیا، کسی کو حملہ کی جرات نہیں ہورہی تھی، شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی قبول کی، ہاتھ اور گردن پر تلوارسے حملہ کیا، سنان بن انس بدبخت نے تیر چلایا، امام حسینؓ گر گئے۔ گرنے پر شمر ذی الجوشن بڑھا، تو برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسینؓ نے فرمایا، کہ میرے نانا ﷺ نے حق فرمایا تھا، کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے، اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے، جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ شمر نے آپ کاسر کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔

امام حسینؓ بادل کی صورت میں اٹھے اور کربلا کی زمین پر برسے، اور برسے بھی ایسے کہ قیامت تک کربلا کی مٹی کو سرخ کر گئے،10محرم 61ھ بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ ابن زیاد کے حکم سے آپ کا جسم اطہرگھوڑوں کی ٹاپوں سے روندوا گیا اور شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابن زیاد کے دربارمیں رکھے گئے، ابن زیاد آپ کے لبوں پر بار بار چھڑی مارتا اور مسکراتا۔ صحابی رسول زید بن ارقم وہاںبڑھاپے کی حالت میں موجود تھے، ان سے رہا نہ گیا، فرمایا ’’ان لبوں سے چھڑی ہٹالو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ رسول اللہ ﷺان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے تھے‘‘ اور رونے لگ گئے، ابن زیاد کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی بولا۔

’’ اگر تو بوڑھا نہ ہوتا، تو میں تیری گردان اڑا دیتا۔‘‘ زید مجلس سے اٹھے اور کہا ’’اے لوگو! آج کے بعد تم غلام بن گئے، کیونکہ تم نے فاطمہؓ کے لخت جگر کو قتل اور ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا، جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا اور شریروں کو نوازتا ہے‘‘ پھر دمشق میں یزید کے دربار میں آپ کے سر اقدس کی توہین کی گئی تو وہاں موجود یہودی سفیر کہنے لگا، ’’میں حضرت موسیٰ کے خاندان سے ہوں۔ ستر نسلیں گزر چکی ہیں، مگر یہودی میری عزت و تکریم کرتے ہیں اور ایک تم ہو، جس نے اپنے نبی ﷺکے نواسے کو شہید کرایا، اب اس پر فخر کر رہے ہو۔ یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ کریم آقاﷺنے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایاتھا کہ جب یہ مٹی سرخ، یعنی خون میں بدل جائے، تو سمجھ لینا، کہ میرا بیٹا حسینؓ شہید کردیا گیا۔ ان کی صاحبزادی ملنے گئیں، تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔

پوچھا گیا، تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا، کہ ابھی رسولِ خدا ﷺ خواب میں تشریف لائے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی، میں نے پوچھا آقا ﷺیہ گرد کیسی تو فرمایا، کہ اے ام سلمہؓ ابھی اپنے حسینؓ کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کربلا سے آرہا ہوں، جاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی، جو انہوں نے مجھے دی تھی، وہ خون ہو چکی ہے۔ ہر دکھ درد کی دوا بس درود مصطفیﷺ 80 بار پڑھ کر شہدائے ایران کربلا کی اقدس ارواح کو ایصال ثواب کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے