واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

کسی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال پوچھا کہ کیا آپ واقعہ معراج پر یقین رکھتے ہیں، میں نے جواب دیا الحمدللہ بالکل کرتا ہوں، اگلا سوا ل یہ تھا کہ آپ تو عقل اور منطق کی باتیں کرتے ہیں پھر یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ ایک رات میں کوئی شخص آسمانوں کی سیر کر آئے۔ میرا جواب تھا کہ اوّل تو بات کسی ”شخص‘‘ کی نہیں بلکہ اللہ کے آخری نبیﷺ کی ہے، دوم، معراج رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا اور معجزہ وہ خرقِ عادت ہے جو نبی سے صادر ہو، اور سوم، یہ واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے اور قرآن کا آغاز اِن الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے ’’یہ کتاب اُن لوگوں کیلئے ہے جو بِن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔‘‘ میرا خیال تھا کہ بحث یہاں ختم ہو جائے گی مگر ’ایک اور سوال کا سامنا تھا منیر مجھ کو‘۔ یہ بتائیں کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ واقعہ معراج دراصل ’رویا‘ تھا اور رویا کے معنی خواب ہیں لہٰذا یہ خواب تھا جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے، سو اُس رات رسول اللہ ﷺ نے کوئی جسمانی سفر نہیں کیا۔ اِس سوال کے جواب میں جو گفتگو ہوئی وہی آج اِس مضمون کی شانِ نزول ہے۔

قران کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ جتنی مرتبہ اسے پڑھتے ہیں ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی نئی بات معلوم ہوتی ہے۔ معراج سے متعلق سورۃ الاسراء کی پہلی آیت ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں ، آج ایک مرتبہ پھر دیکھتے ہیں: ’’ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‘۔‘‘ ترجمہ:’’ پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے با برکت بنایا ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔‘‘ اِس ضمن میں جاوید غامدی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ اسی سورۃ کی آیت 60 میں اللہ نے خود بتا دیا ہے کہ واقعہ معراج دراصل رویا یعنی خواب تھا۔ وہ آیت بھی پڑھ لیتے ہیں: ’’وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِىٓ اَرَيْنَاكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِى الْقُرْاٰنِ ۚ وَنُخَوِّفُـهُـمْ فَمَا يَزِيْدُهُـمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْـرًا۔‘‘

ترجمہ: ’’یاد کرو اے نبی، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ ترے ربّ نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے۔ اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تم کو دکھایا ہے ، اُس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ ہم نے ان لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا۔ اور ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں مگر ہر تنبیہ اِن کی سرکشی میں اضافہ کیے جاتی ہے۔‘‘ بقول غامدی صاحب، آیت 60 میں لفظ رویا خواب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ اسی خواب کی جانب اشارہ ہے جس کا ذکر پہلی آیت میں آیا ہے۔ غامدی صاحب نے اِس پر تفصیلی گفتگو کی ہے مگر اُن کی بنیادی دلیل یہی ہے۔

ہم ایک لمحے کیلئے فرض کر لیتے ہیں کہ غامدی صاحب کی بات درست ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن نے اِس واقعے کو خواب کی بجائے حقیقت کے طور پر بیان کرنا ہوتا تو کیسے کرتا، یعنی پھر سورۃالاسراء کی پہلی آیت میں کیا لفظ اور زبان استعمال کی جاتی، کیا وہ موجودہ آیت سے مختلف ہوتی؟ اِس سادے سے سوال کا جواب ہے کہ نہیں، اگر اللہ نے قرآن میں یہ بتانا ہوتا کہ وہ نبیﷺ کو ایک رات میں اپنی نشانیاں دکھانے کی غرض سے جسمانی طور پر ہزاروں میل کے سفر پر لے گیا تو اُس صورت میں بھی آیت کے الفاظ یہی ہوتے۔ کسی بھی قانون کی تشریح کا سنہری اصول یہ ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ پڑھنے سے جو مطلب شیشے کی طرح صاف نظر آئے، وہی اصل اور درست مطلب ہوتا ہے۔ یہی اصول اگر ہم یہاں لاگو کریں تو بات واضح ہو جاتی ہے، کوئی بھی شخص، اگر اِس آیت کو پڑھے گا تو پہلا مطلب اُس پر یہی آشکار ہوگا کہ یہ حقیقت کا بیان ہے، کسی خواب کا نہیں۔

پہلی آیت میں جہاں نشانیاں ’دکھائے‘ جانے کا ذکر ہے وہاں عربی میں لفظ لِنُرِيَهُ استعمال ہوا ہے جسے غامدی صاحب نے بغیر کسی حیل و حجت کے ’دیکھنے‘ کے معنی میں تسلیم کرلیا ہے لیکن آیت 60 میں جہاںالرُّؤْيَا کا لفظ آیا ہے اُس کا ترجمہ غامدی صاحب نے خواب کے معنوں میں کیا ہے۔ گویا ایک ہی سانس میں آپ نے دو مختلف ترجمے کیے ہیں جبکہ سیاق و سباق تبدیل نہیں ہوا۔ یہ دونوں الفاظ الرُّؤْيَا اور لِنُرِيَهُ ٝ، بھائی بہن ہیں، دونوں کا مصدر ایک ہے، اِن کا سہ حرفی مادہ رأی ہے، یہ دیکھنا کے معنی میں بھی آتا ہے اور خواب کے معنی میں بھی، رویت بھی یہیں سے نکلا ہے، رویت ہلال کمیٹی جب چاند دیکھتی ہے تو وہ خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں دیکھتی ہے لہٰذا یہ کہنا کہ رویا خواب کے معنوں میں ہی استعمال ہو سکتا ہے یا ہوا ہے، درست نہیں ہے۔ معافی چاہتا ہوں میں دقیق لسانی بحث میں الجھ گیا، مقصد صرف یہ تھا کہ جب ہم قرآن کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کریں تو اسے اپنی مرضی کا مطلب نہ پہنائیں۔ خود غامدی صاحب نے غلام احمد پرویز کی تعبیر دین کے حوالے سے جو مضمون لکھا ہے اُس میں انہوں نے یہی دلیل دی جو یہ بندہ عاجز دے رہا ہے۔

اصل میں آج کے علماء کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ انہوں نے ماڈرن مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود شک و شبہات کو کیسے دور کرنا ہے، یہ علماء مذہب کو عقل و منطق کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ کارِ لا حاصل ہے کیونکہ مذہب کا دائرہ کار تو شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں عقل کی حدود ختم ہوجاتی ہیں۔ جب تک انسان حتمی طور پر یہ معلوم نہیں کر پائے گا کہ اِس کائنات کی تخلیق کس نے کی اور زندگی بعد از موت کیسی ہوگی، اُس وقت تک مذہب کا مقدمہ ایمان بالغیب کی بنیاد پر قائم رہے گا۔ اِس بحث کا ایک فلسفیانہ پہلو بھی ہے اور وہ خاصا دلچسپ ہے۔ سپینوزا نے یہ کہہ کر اِس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی کہ جب بھی ہمیں کارخانہ قدرت میں کوئی غیر منطقی بات نظر آتی ہے یا ہم بدی کے معمے کا حل نہیں کر پاتے تو اِس کی وجہ ہمارا محدود علم ہوتا ہے، ایک جانب انسان آفاقی ہم آہنگی اور نظم سے ناواقف ہے جبکہ دوسری جانب وہ چاہتا ہے کہ ہر شے انسانی عقل اور شعور کے مطابق ترتیب پائے۔غامدی صاحب بھی اسی تضاد کا شکار ہیں، وہ امریکہ میں رہنے والے ماڈرن مسلمانوں کو یہ بتا کر مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ واقعہ معراج رویا تھا، کیونکہ شکاگو یا ڈیلس میں رہنے والے کیلئے یہ ماننا مشکل ہے کہ چودہ سو سال پہلے ایک رات میں ہزاروں میل کا سفر کیا گیا۔ جواب وہی ہے جو قرآن نے دیا یعنی ’ایمان بالغیب‘ اور اگر یہ سودا پسند نہیں تو پھر قرآن کی من پسند تعبیر تلاش کرنے کی بجائے کوئی اور در دیکھیں، اسلام کی چودہ سو سال کی روایت کو مت چھیڑیں، پلیز۔

نوٹ: یہ کالم 12 ربیع الاول کے حوالے سے عقیدت کے اظہار کے طور پر لکھا گیا ہے، مقصد غامدی صاحب کے علمی رتبے کو چیلنج کرنا نہیں۔
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے