ڈونلڈ 1کا نام، مارچ 2022ءمیں اُس وقت فضائوں میں گونجا جب عمران خان کا آفتابِ اقتدار، نصفُ النہار سے لُڑھکتا ، یکایک اُفقِ مغرب سے آن لگا تھا اور اُنکے تختِ طائوس کو اُڑائے لئے پھرنے والی ہوائوں کے کندھے بھاری بوجھ سے شَل ہونے لگے تھے۔ سرکارِ دربار سے خبر اُڑی کہ قرارداد عدم اعتماد پیش ہونے سے صرف ایک دِن قبل، 7مارچ کو، امریکہ کے نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیائی اُمور، ڈونلڈ لُو (DONALD LU) نے پاکستانی سفیر اسد مجید سے ملاقات کی، جس کی روداد سفارتی زبان میں ’سائفر‘ کے ذریعے پاکستانی وزارتِ خارجہ کو بھیج دی گئی۔ سائفر کی ایک نقل، طریقِ کار کے مطابق وزیراعظم ہائوس بھی ارسال کردی گئی۔ عمران خان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہ تھی جسے وہ قراردادِ عدم اعتماد کے سازشی محرک کے طورپر پیش کرتے۔ سو اُنہوں نے ’ڈونلڈ لُو‘ سے منسوب مکالمے میں مرضی کے نقش ونگار ٹانکے، اپنے فنِّ بیانیہ تراشی کو مہمیز لگائی اور جمہوری پارلیمانی نظام کے بطن سے جنم لینے والے معمول کے سیاسی ارتعاش کو فتنہ ساماں امریکی سازش کا نام دے دیا۔ انہوں نے اپنی سپاہ سے کہا کہ ’’ہم اس سے کھیلیں گے۔‘‘ کھیل شروع ہوا تو ’ڈونلڈ لُو‘ کے پرخچے اڑا دیے گئے، اُسے امریکی سازش کا مہرہ قرار دے دیاگیا۔
عوام کو بتایاگیا کہ امریکہ نے ’ڈونلڈ لُو‘ کی زبانی پیغام بھیجا ہے کہ اگر عمران اقتدار میں رہا تو پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنا ہونگے۔خان صاحب بولے ’’ڈونلڈ لُو کے ذریعے ہمارے جرنیلوں کو بھی سازش میں شریک کرلیاگیا ہے۔‘‘ اِن جرنیلوں کو میرجعفر اور میر صادق کے نام دے دئیے گئے۔ ’ڈونلڈ لُو‘ نیزے کی اَنی میں پرو لیا گیا۔ ہر جلسے میں وہ ہدفِ دشنام بننے لگا۔ پی۔ٹی۔آئی کے سوشل میڈیا نے ’ڈونلڈ لُو‘ کی کردار کشی اور امریکہ کے’’ دشمنانہ کردار ‘‘کو اپنی بالاتریں ترجیح بنالیا۔ امریکہ کی ’غلامی‘ سے نجات کے وجد آفریں نعرے لہو گرمانے لگے۔ ’’حقیقی آزادی‘‘ کی للکار اُٹھی۔ ’’ہم کوئی غلام ہیں؟‘‘ کا استفہامیہ انقلابی نعرہ ایجاد ہوا۔ ’’غلامی نامنظور‘‘ کی گونج سے دَرودِیوار تھرتھرانے لگے۔ پی۔ڈی۔ایم کی حکومت کو ’’اِمپورٹڈ‘‘ یعنی امریکہ کی مسلّط کردہ کٹھ پتلی انتظامیہ قرار دے دیاگیا۔
ڈونلڈ1کی کہانی کو کم وبیش پونے تین سال بیت چکے ہیں۔ وہ آج بھی پی۔ٹی۔آئی کی لُغت میں مردِ معتوب ونامطلوب ہے لیکن حالیہ امریکی انتخابات کے اُفق سے ایک اور ڈونلڈ، طلوع ہوا ہے کہ اُس کا پورا نام ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ ہے۔ امریکہ میں موجود پی۔ٹی۔آئی کے وابستگان نے ڈونلڈ 2 کو نہ صرف ووٹ دیے، اُسے نوٹوں سے بھی مالا مال کردیا۔ دِل و جان سے اُس کی انتخابی مہم چلائی۔ اِدھر پاکستان میں موجود ’قبیلۂِ انصاف‘ کے مردوزَن نے گریہ وزاری کرتے ہوئے دعائیں مانگیں، منتیں مانیں، نذریں گزاریں، آخرِشب کی مستجاب گھڑیوں میں پہروں سجدہ ریز رہے۔ اُن کی التجائیں، رنگ لائیں اور ڈونلڈ2 جیت گیا۔ پی۔ٹی۔آئی اب یہ توقع لئے بیٹھی ہے کہ ڈونلڈ2، تختِ صدارت پر بیٹھتے ہی عمران خان کی رہائی کو ترجیحِ اول بناتے ہوئے، ڈونلڈ1 سے بھی کہیں زیادہ کرخت لہجے میں دھمکی دے گا اور اڈیالہ کے سارے پھاٹک اِس دھمکی کی لرزش سے خودبخود کھُلتے چلے جائیں گے۔ ڈونلڈ 2 کی یہ برہنہ ،آمرانہ اور ذلت آمیز دھمکی ہر اعتبار سے مباح اور حلال کہلائے گی کیونکہ ڈونلڈ1 نے چھری چلاتے ہوئے کلمہ نہیں پڑھا تھا جب کہ ڈونلڈ2 ، پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر چھرا چلائے گا تو پاس کھڑے ذلفی بخاری بہ آواز بلند تکبیر پڑھیں گے اور پاکستان کے خلاف ہر طرح کا ناروا سلوک حلال و طیب قرار پائے گا۔ ڈونلڈ 2 کو متوجہ کرنے کے لئے عارف علوی نے پہلے ہی خوشامدانہ اور دردمندانہ لہجے میں شہنشاہِ عالم پناہ کے حضور ’’فریاد یتیم‘‘ جیسی عرضی گزار دی ہے۔
کیا ڈونلڈ 2، ڈونلڈ 1کے گناہوں کی تلافی کرنے کے لئے سفارتی آداب، باہمی تعلقات کی نزاکتوں حتّی کہ امریکی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں عمران خان کی رہائی کے لئے وقف کردے گا اور کیا پاکستان ایسا مطالبہ مان لے گا؟ اِن سوالوں کے جواب کے لئے شکیل آفریدی نامی شخص کی کہانی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جو بارہ برس سے پاکستان کی کسی جیل میں 33 سالہ قید کاٹ رہا ہے۔ یہ سزا دو ایسے جرائم میں دی گئی ہے جن کا کوئی تعلق اُس کے اصل جرم سے نہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی وہ پاکستانی ہے جس نے اپنے کمالِ فن سے اُسامہ بن لادن کا سراغ لگایا اور امریکیوں کو اپنے ہدف تک پہنچنے میں مدد دی۔ امریکہ شکیل آفریدی کو اپنا محسن اور ہیرو مانتا ہے۔ اُسے کانگریشنل گولڈ میڈل اور امریکی شہریت دینے کی قراردادیں آ چکی ہیں۔ اُس کی گرفتاری کے دو سال بعد، جون 2014میں ری پبلکن کانگریس مین ڈینا رورابیکر (Dana Rohrabacher)نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا __ ’’امریکہ کیوں ایک ایسے ملک کو انسدادِ دہشت گردی کے لئے پانچ سو ملین ڈالر کی مدد دے رہا ہے جس نے ہمارے منہ پر زناٹے کا طمانچہ رسید کرتے ہوئے شکیل آفریدی کو جیل میں ڈال رکھا ہے۔‘‘ کانگریس مین ٹیڈ پو (Ted Poe) نے 2017میں ایوان کے اندر شعلہ بار تقریر کرتے ہوئے کہا ’’پاکستان پرلے درجے کا منافق ملک ہے۔
آفریدی، جو سب سے بڑے تمغے کا مستحق ہے، جیل میں پڑا ہے۔ پاکستان پر آفریدی کی رہائی کے لئے دبائو ڈالا جائے ورنہ اُسے دہشت گرد ملک قرار دے دیا جائے۔‘‘ شکیل آفریدی سے امریکیوں کی شدید جذباتی وابستگی کا عالم یہ ہے کہ اُس کی 33 سالہ قید کی مناسبت سے امریکی سینیٹ نے ہر سال کے عوض ایک ملین ڈالر کے حساب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد میں 33 ملین ڈالر کی کٹوتی کردی۔ اِس سب کچھ کے باوجود، جب ایک رُکن کانگریس کی طرف سے امریکی امداد مکمل بند کردینے کے لئے ترمیم ایوان میں آئی تو اُسے 92 کے مقابلے میں 320 ووٹوں سے مسترد کردیاگیا۔ اوباما انتظامیہ کی دلیل بڑی واضح تھی ’’ایسا کرنے سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔‘‘ یہ ہے وہ بنیادی نکتہ جسے اندھی خواہشات کے بادبانوں میں ہوا بھرنے والی طفلانہ کج فکری سمجھنے سے قاصر ہے۔
اگر امریکہ اپنے عظیم محسن، ایوارڈ یافتہ ہیرو اور اعزازی شہری، شکیل آفریدی کیلئے قومی مفاد دائو پر نہیں لگا سکا تو عمران خان کیلئے اُس کی ممتا کیوں انگاروں پہ لوٹنے لگے گی؟ اور اگر ہر نوع کے دبائو کے باوجود کسی پاکستانی حکومت نے شکیل آفریدی کو رہا نہیں کیا تو عمران خان کے حوالے سے اُس کا دِل کیوں یکایک موم ہوجائے گا؟ خود خان صاحب کی ہمشیرہ، علیمہ خان نے مقامی لب ولہجہ میں نہایت عمدگی سے گُتھی سلجھاتے ہوئے کہا ہے __ ’’ٹرمپ کوئی ہمارا ابا لگتا ہے؟‘‘ لیکن خان صاحب کے فدائین کو کون سمجھائے؟ عمران خان کی کتابِ سیاست، گنجلک بھول بھلیوں، نازک آبگینوں کی طرح ٹوٹتے عہدوپیماں، آتے جاتے موسموں کے ساتھ تبدیل ہوتے نظریوں، شوخ حسینائوں کی طرح پیہم بدلتے پیراہنوں جیسے اصولوں اور خود پرستی وخود مفادی کی ٹیکسال میں ڈھلے متضادو متصام بیانیوں کی طلسم ہوشربا ہے۔ سو ’’غلامی سے نجات‘‘ اور’’ حقیقی آزادی‘‘ کا قافلۂِ سخت جان امریکی پرچم لہراتا ٹرمپ زندہ باد کے نعرے لگاتا صوابی آن پہنچا ہے۔ انقلابی قبیلے کے ہر سورما کی جبینِ نیاز میں امریکی دہلیز کیلئے ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں __ مگر درِجاناں کھُلے تو!
بشکریہ جنگ