شاعری کو شاعر کی اولاد کہا جا سکتا ہے ۔ جب بھی کوئی شاعر شعر تخلیق کرتا ہے تو وہ اس شعر سے بلا شبہ اولاد جیسی محبت کرتا ہے۔ اگر کسی کی اولاد کو کسی دوسرے کا نام دے دیا جائے تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟ بے شمار شعرا کے ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جن کو دیگر نام وّر شعرا کے نام لگایا جاتاہے۔ اس سلسلے میں دیکھا گیا ہے کہ علامہ محمد اقبالؔ کے کھاتے میں زیادہ تر اشعار ڈالے گئے ہیں۔ اس کی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ اقبالؔ ایسے شاعر ہیں جن کے نام سے ہر کوئی واقف ہے ۔ دوسرا جس شعر کا خالق گم نام ہو وہ شعر اقبالؔ کا یا پھر کسی دوسرے معروف شاعر کا نام لگا کر پیش کردیاجاتا ہے ۔
اس سلسلے میں چند اشعار کا ذکر کر رہا ہوں جن کو ان کے خالق کا نام ہٹا کر اقبالؔ یا کسی دوسرے شاعر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے ۔ ہمارے کچھ معزز دوست ایک قِطعہ اکثر اقبالؔ کے نام سے پڑھ جاتے ہیں۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فنتہ
اس قطعے کے حوالے سے کچھ کھوج لگانے میں کام یابی ہوئی اور اس کے اصل خالق تک پہنچ گیا۔ میں قبل ازیں بھی لکھ چکاہوں کہ جو اشعار اقبالؔ کے نام سے منسوب ہوں ان کی تصدیق نہایت سہل ہے ۔ کلیاتِ اقبال تک ہر ایک کی رسائی با آسانی ہو سکتی ہے ۔ کلیاتِ اقبال سے دیکھ لیں ۔اگرتوزیر بحث شعر اس میں یا پھر ’’باقیاتِ اقبال‘‘ میں موجود ہے تو اقبال ؔ ہی کا ہے اگر نہیں تو پھر اقبالؔ کی بہ جائے شاعر نا معلوم لکھ دیا جائے ۔
درج بالا قطعے کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ قطعہ ہندوستان کی ریاست راجستھان کے علاقے مادھوپور، بہیتڑ سے تعلق رکھنے والے شاعر سرفرازؔ بزمی فلاحی کا ہے ۔ سرفرازؔ بزمی کی ولادت ۰۲،فروری۱۹۶۹ء کو ہوئی۔ ان کا اصل نام ’’سرفراز احمد خان‘‘ ہے ۔ تاہم ادبی حلقوں میں سرفرازؔ بزمی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سرفراز بزمی نے راجھستان یونی ورسٹی جے پور سے گریجویشن فارسی اردو اور تاریخ کے مضامین میں مکمل کیا۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کی سند،اجمیر یونی ورسٹی اجمیر سے حاصل کی۔ بہ طور مدرس راجھستان میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سرفرازؔ بزمی کا مذکورہ قطعہ مارچ۱۹۹۳ء میں شعرائے راجھستان کے ایک انتخاب میں جب شائع ہوا تو اس کی صورت کچھ یوں تھی:
جو حق سے کرے دور وہ تدبیر بھی فتنہ
اولاد بھی اجداد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیرتو کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
(انتخاب قِطعات و رباعیات ، غوث شریف عارف(مرتبہ) راجھستان اردو کادمی، جے پور، مارچ ۱۹۹۳ء)
سرفراز بزمی کے مطابق جب یہ قطعہ ذرا بدل کر مشہور ہوگیا تو انھوں نے بھی اس کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نئی صورت کو قبول کر لیا۔ یہ معلوم نہیں کہ کب اور کس وجہ سے اس قطعے کو اقبالؔ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا؟ اب بھی انٹرنیٹ پر یہ قطعہ علامہ اقبالؔ کے نام سے ملتا ہے جو غلط ہے ۔
اب ایک اور شعر کو دیکھتے ہیں جس کو اقبالؔ اور کچھ احباب مولانا ظفر ؔ علی خان کے نام سے پڑھتے ہیں۔ یہ شعر بھی ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اکثر لکھا ملتا ہے ۔
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہو جاتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
یہ شعر بھی ایک گم نام شاعر کا ہے جسے مضطرؔ نظامی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔، مضطرؔ نظامی جن کا اصل نام خدا بخش اور کنیت ابو طاہر تھی ۱۸،اگست ۱۹۰۹ء کو ضلع سیال کوٹ کی تحصیل پسرور میں پیدا ہوئے۔ تاحال ان کا مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا البتہ ان کا کلام مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوتا رہا۔ مضطر ؔ نظامی کی ابتدائی تعلیم امریکن مشن اسکول پسرور میں مکمل ہوئی۔ بیس برس کی عمر میں(۱۹۲۹ء) گورنمنٹ انٹر کالج پسرور سے میٹرک پاس کیا۔ ۱۹۳۴ء میں جامعہ پنجاب سے ادیب عالم بہ درجہ اول پاس کیا۔
اکتوبر۱۹۴۸ء میں جامعۂ پنجاب سے گریجویشن مکمل کیا۔ نظامیؔ نے اپنی زندگی درس و تدریس میں گزاری ۱۹۳۷ء میں وہ بہ طور استاد اپنی عملی زندگی کا آغاز کر چکے تھے۔ ۳۱،جون۱۹۶۷ء کو وہ ڈی سی ہائی ا سکول قلعہ سوبھاسنگھ، تحصیل ناروال سے ریٹائر ہوئے۔ زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد مضطر ؔ نظامی ۰۹،اکتوبر ۱۹۶۹ء کو واصل بہ حق ہوئے۔
مضطر ؔ نظامی پر ایم فل کی سطح کے دو مقالے لکھے جا چکے ہیں۔۱۹۹۵ء میں شیخوپورہ کے مرزا محمد صدیق نے ’’مضطرؔ نظامی حیات اور فن‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا جب کہ دوسرا مقالہ پسرور کے محمد افضال نے ۲۰۱۷ء میں ’’تدوینِ خدا بخش مضطرؔ نظامی‘‘ کے عنوان سے لکھا۔یہ دونوں مقالے علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں تحریر ہوئے۔ مضطرؔ نظامی کے بیٹے طاہرؔ نظامی بھی شاعر اور استاد ہیں۔ معلومات کی فراہمی کے لیے ان کا شکر گزار ہوں۔ زیرِ بحث شعر مضطر ؔ نظامی کے جس نظم کا ہے وہ یکم ،مئی ،۱۹۶۸ء کے روزنامہ نوائے وقت میں بھی شائع ہو چکی ہے ۔ ’’پاک درس گاہیں‘‘ کے عنوان سے یہ نظم بھی پیش خدمت ہے ۔
’’پاک درس گاہیں‘‘
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
صرف کرتا ہے جگر کا خون معمارِ عظیم
قوم کے کردار کی تشکیل ہوتی ہے یہاں
تربیت اطفال کی دراصل ہے افضل جہاد
روح تک اُستاد کی تحلیل ہوتی ہے یہاں
چشمِ ظاہر بیں کتابی علم تک محدود ہے
فیضِ روحانی کی بھی تحصیل ہوتی ہے یہاں
رحمتِ باری کا مضطرؔ دیکھ ہوتا ہے نزول
صبح دم قرآن کی ترسیل ہوتی ہے یہاں
جیساکہ اوپر بیان ہوچکا ہے یہ نظم یکم، مئی۱۹۶۸ء کے روزنامہ نوائے وقت میں بھی شائع ہو چکی ہے ۔مضطر ؔ نظامی مرحوم کے اس شعر کے حوالے سے ایک بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی۔ جب دو سال قبل میں نے اس شعر کو فیس بک پر لگایا تو ایک دوست محمد عثمان نے اعتراض اٹھایا کہ یہ شعر جناب اقبالؔ کیفی کا ہے ۔ جس پر میں نے محترم ناصرؔ زیدی سے رہنمائی طلب کی ناصرؔ زیدی صاحب نے بتایا کہ یہ شعر مضطرؔ نظامی کا ہے اور انھوں نے پسرور میں اپنے اسکول کی دیواروں پر بھی لکھوارکھا تھا۔
محمد عثمان صاحب نے مزید کہا کہ اقبالؔ کیفی بہ قیدِ حیات ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں۔ میں نے ان سے ملنے اور اس گتھی کو سلجھانے کے لیے ۱۴،جنوری۲۰۱۷ء کولاہور کا سفر کیا۔ انجینرنگ یونی ورسٹی میں اقبالؔ کیفی صاحب سے ملاقات کی ان کی کتاب ’’تلأی شام‘‘ بھی حاصل کی۔ مزے کی بات کہ اس میں بھی یہ شعر موجود تھا۔ لیکن جب سالِ اشاعت دیکھا تو۲۰۱۱ء نظر آیا۔ اس پر مجھے تشویش ہوئی کہ یہ شعر۲۰۱۱ء کا ہر گز نہیں خاصا پرانا ہے ۔ اقبالؔ کیفی کا اس سے قبل ان کے شائع شدہ کسی مجموعے یا کسی اخبار میں یہ نظم یا یہ شعر نہیں ملتا۔ بہ طور محقق میں نے جائزہ لیا اور اس ضرب المثل شعر کو مضطر ؔ نظامی ہی کا تسلیم کیا۔ اقبال ؔ کیفی بھی بہت اچھے شاعر سہی لیکن یہ شعر مضطرؔ نظامی مرحوم ہی کا ہے ۔ اقبالؔ کیفی کے ہاں تو اردیا انتحال کس وجہ سے آیا ؟یہ کہنا محال ہے ۔
قارئین کی دل چسپی کے پیش نظر اقبالؔ کیفی کی نظم بھی حاضرخدمت ہے ۔
آگہی کی، عقل کی، ترسیل ہوتی ہے یہاں
مصطفیٰﷺ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے یہاں
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
فطرتِ اِنسانیت تشکیل ہوتی ہے یہاں
رغبتِ آدابِ اسماعیلؑ ہوتی ہے یہاں
عُقدۂ الفاظ کی تفصیل ہوتی ہے یہاں
روز و شب ناخواندگی تحلیل ہوتی ہے یہاں
علم کی ، عرفان کی، تحصیل ہوتی ہے یہاں
روز، روشن اک نئی قِندیل ہوتی ہے یہاں
ختم کیفیؔ وحشت و تجہیل ہوتی ہے یہاں
زندگی تفضیل در تفضیل ہوتی ہے یہاں
(اقبال کیفیؔ ، تلخئ شام،الاشرق کمپوزنگ سنٹر،لاہور،مئی۲۰۱۱،ص۱۰۹)
اس تمام بحث کے بعد یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اقبال کیفیؔ کی نظم کے مقابلے مضطر ؔ نظامی کی نظم جان دار اور عمدہ اُسلوب کی حامل ہے ۔اقبال کیفیؔ کو چاہیے کہ وہ اپنی نظم کا یہ شعر واوین میں رکھ دیں اور ادب دوستی کا ثبوت دیں۔
اسی طرح حسن ؔ ظہیر راجا کا یہ شعر دیکھیں جس پر کچھ دوست مغالطے میں مبتلا ہیں:
تیرا ہنسنا بھی کیا مصیبت ہے
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
اس شعر کی مقبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ کسی مہربان نے اس کو بہت معمولی تحریف کر کے جون ایلیا کے نام کر دیا۔
تیری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیں
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
اس شکل میں انٹرنیٹ پر یہ شعر جون ایلیا کے نام سے ملتا ہے ۔ مجھے ایک دوست نے جب یہ دونوں اشعار بھیجے تو مجھے ایک دفعہ لگا کہ شائد حسنؔ نے غلطی کی۔ میں نے حسن ؔ ظہیر سے بات کی تو وہ مسکرایا اور بولا تم خود تحقیق کرو مجھے کیا کہتے ہو؟ حسنؔ میرا بہت اچھا دوست ہے اس وجہ سے میں نے کبھی اس کی بے جا تعریف نہیں کی۔ لیکن اس کی یہ خوبی ہے کہ غلطی پر بہ جائے خفا ہونے کے شکرگزار ہوتاہے ۔ میں نے اپنے تئیں کوشش کی جون ایلیا کے تمام مجموعے دیکھے کچھ جون ایلیا کے شیدائیوں سے بھی بات کی مگر ناکام رہا۔ ہر ہر طریقے سے معلوم کیا لیکن سوائے انٹرنیٹ کے کسی مستند ذریعے سے یہ شعر جون ایلیا کا ثابت نہ ہو سکا۔
میرے دوست ظہیرؔ عمر رانجھا (جو کہ جون ؔ ایلیا سے والہانہ عشق کرتا ہے اور جونؔ کے کلام سے بہت شناسا ہے) نے بھی تردید کی کہ یہ شعر ہر گز جون ؔ ایلیا کا نہیں۔ تمام تر کوشش کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ شعر حسنؔ ظہیر راجا کا ہی ہے۔ قارئین کے ذوقِ تسکین کے لیے حسنؔ کی یہ مکمل غزل حاضر ہے ۔
وہ پرندے بھی ساتھ لایا تھا
میں نے جس پیڑ کو بلایا تھا
تیرا ہنسنا بھی کیا مصیبت ہے
میں کوئی بات کرنے آیا تھا
یہ ہوائیں بھی کتنی جھوٹی ہیں
ہم نے بس ہاتھ ہی ملایا تھا
پھر کوئی بات آگئی دل میں
میں اسے پاس لے ہی آیا تھا
وہ تو حیرت میں ڈالنا تھا اُسے
کون دریا کو روک پایا تھا؟
تتلیاں بھر گئی تھیں کمرے میں
پھول دیوار پر بنایا تھا
وہ محبت اگر نہیں تھی حسنؔ
اس نے چائے میں کیا ملایا تھا
میری یہ کاوش قارئین کے ذوق پر کہاں تک پورا اتری آرا کا انتظار رہے گا۔ اپنی رائے اور مشورے کے لیے03334949227 پر رابطہ کیجئے۔ شکر یہ