ملاکنڈ ریجن کے علاقہ بٹ خیلہ میں پیاز کی پنیری لگانے کا کام صرف بچوں سے لیا جاتا ہے جس کے عوض اُنہیں 450 روپے روزانہ ملتے ہیں۔
پیاز کی پنیری لگانے میں مصروف چھٹی جماعت کے طالب ساحل خان کا کہنا ہے کہ ’’اس عمر میں کام کرنا کسے اچھا لگتا ہے, والد بھی مزدوری کرتے ہیں لیکن وہ اکیلے گھر کا خرچہ پورا نہیں کرسکتے اس لئے سکول کی چھٹی ہوتے ہی میں بھی کام کیلئے نکل آتا ہوں اور روزانہ 450 روپے کماتا ہوں‘‘ ۔
مزدوری سے حاصل ہونے والی رقم کا کیا کرتے ہو؟اس سوال پر ساحل خا ن کا کہنا تھا کہ روزانہ 300 روپے ماں کو دیتا ہوں اور 150 روپے سکول یونیفارم اور جوتوں کیلئے جمع کرتا ہوں۔
شولگرا میں موجود عمران خان جو نہم جماعت کا طالب علم ہے کہتا ہے کہ گزشتہ تین سال سے پیاز کی پنیری لگا رہا ہوں،یہ کام آسان ہے اور کھانا بھی وقت پر ملتا ہے اس لئے پیاز کی پنیری لگانے کا کام شوق سے کرتا ہوں۔میرے والد بھی مزدوری کرتے ہیں لیکن وہ اکیلے گھر کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا۔
سکول کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ سکول میں اساتذہ کو بتایا ہے کہ میں مزدوری کرتا ہوں۔اس لئے مہینے میں کچھ دنوں کیلئے سکول جاتا ہوں باقی دنوں میں مزدوری کرتا ہوں۔
ابرار حسین جو صبح سویرے کام والے بچوں کو اکٹھا کرکے بٹ خیلہ شوگرہ لاتے ہیں اور مختلف کسانوں کے پاس کام کیلئے چھوڑ جاتے ہیں،اس وقت ابرار حسین کے پاس 150 تک کام کرنے والے بچے موجود ہیں۔
ابرار حسین سے جب سوال کیا گیا کہ پیاز کی پنیری کیلئے صرف بچے ہی کیوں؟ تو جواب میں اُن کہنا تھا کہ یہ کام انتہائی آسان ہے جو صرف بچے ہی تیزی سے کرسکتے ہیں،بچے کام بھی زیادہ کرتے ہیں ،کم وقت میں کھانا کھاتے ہیں اور نماز کیلئے بھی وقفہ نہیں لیتے۔اس لئے ان سے زیادہ کام لیا جاسکتا ہے۔
ضلع ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ابوذرجمیل کا کہنا ہے کہ بچے کم پیسوں پر کام کرتے ہیں، جس سے کام لینے والوں کا فائدہ ہوتا ہے دوسرا یہ کہ بچوں کو عام جگہوں پر اتنے پیسوں پر کام نہیں ملتا جتنا اس کام میں ملتا ہے ، اس لئے بچے زیادہ اس کام کی طرف آتے ہیں۔
پورے ضلع میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں صرف ان بچوں پر توجہ دیتی ہیں ،جن میں میڈیا پر آکر مشہور ہونے کے چانسززیادہ ہوں۔ والدین میں شعور کی کمی کی وجہ سے بچے کم عمری میں مزدوری شروع کرتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم کی بجائے مزدوری پر ان کی زیادہ توجہ ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف اس ضلع میں نہیں بلکہ پورے صوبے میں آئین کے مطابق فری تعلیم نہیں،جس کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنا ان لوگوں کے بس کی بات نہیں جوایک وقت کے کھانے کیلئے ترستے ہیں۔