بے نظیر خلا سے نیب لاہور کی 29 ارب وصولی تک

سورگباشی کلدیپ نائر ہندوستان کے نامور صحافی اور رائے ساز تھے جو سیالکوٹ سے ہجرت کرکے ہندوستان گئے اور جیون بھر پاکستان کے دوست رہے۔

ان کی آپ بیتی کا عنوان ہے ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ کالموں میں دو تین دن کا ناغہ ہوجائے تو کالم کا عنوان بھی کچھ اسی قسم کا ہونا چاہئے کہ ’’ایک کالم کافی نہیں‘‘۔

سو آج کے کالم میں کئی کالم موجود ہیں۔پہلا کالم ن لیگ کی ایک ’’لیڈرانی‘‘ کے بیان پر جسے لوگ پیار سے آپا چھٹکی، چھوٹی، چٹکی، مریم جونیئر وغیرہ بھی کہتے ہیں۔

پکا پیڈا سا منہ بنا کر گٹے جوڑتے ہوئے جھوٹ اتنے اعتماد سے بولتی ہیں کہ اچھا خاصا بندہ اس اعتماد سے سچ بھی نہیں بول سکتا لیکن یہ بات بہرحال ماننی پڑے گی کہ زبان و بیان پر گرفت ان کی بہت عمدہ اور مضبوط ہے۔

بے نظیر بھٹو مرحومہ کی برسی پر ہماری اس منی آپا نے بے نظیر بھٹو کو’’ خراج تحسین‘‘ پیش کرتے ہوئے کچھ اس طرح کہا کہ’’بے نظیر بھٹو اک عظیم لیڈر تھیں اور ان کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلاء صرف مریم نواز ہی پر کر سکتی ہیں‘‘خواہش اچھی ہے لیکن تھوڑی مشکل اور کچھ خطرناک بھی ہے۔

بے نظیر بھٹو ہونے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور سر شاہنواز بھٹو کی پوتی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے جبکہ ان ’’مشکلات‘‘ پر قابو پانا ممکن نہیں کیونکہ ماضی کو تو قدرت بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔

’’خطرناکی‘‘اس میں یہ ہے کہ باپ کو تختہ دار پر دیکھنا پڑتا ہے، نصرت بھٹو جیسی ماں کو قذافی اسٹیڈیم میں لاٹھیاں کھاتے برداشت کرنا پڑتا ہے، دوجوان بھائیوں کے قتل سہنے پڑتے ہیں، جنرل ضیاء جیسے ڈکٹیٹر کے پروردہ سیاستدانوں کی گالیاں سہنی پڑتی ہیں،

’’سکیورٹی رسک‘‘جیسے خطابات’’ قبول‘‘ کرنے پڑتے ہیں، زندگی میں بیوہ کر دیئے جانے کی دھمکیاں فیس کرنی پڑتی ہیں کہ ’’پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالیں گے‘‘۔

چاچا جی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنا دیتے تو بے نظیر بھٹو کا سہاگ کیسے سلامت رہتا ؟ —– اور آخر پر خود بھی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ یہ تو تھیں بے نظیر زندگی کی صرف چند جھلکیاں اور خون میں نہائی چند سرخیاں جس کا مطلب یہ کہ بے نظیر کی طرح ’’سر تا پا المیہ‘‘ بن کر جینا اور مرنا بہت مشکل کام ہے۔

اس لئے مریم نواز سے بے نظیر بھٹو کی موت پر پیدا ہونے والا خلاء پر کروانے کی خطرناک خواہش پر نظرثانی فرمائیں، مریم نواز کو جینے دیں اور اس کا سایہ بچوں کے سر پہ سلامت رہنےدیں۔

امید ہے چھٹکی، چھوٹی یا چٹکی آپا اس بیش قیمت مشورہ پر غور فرمائیں گی کیونکہ بے نظیر بھٹو تو اک ایسے ’’پیکیج‘‘ کا نام ہے جس سے قطرہ قطرہ لہو ٹپک رہا ہے۔

اب چلتے ہیں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے ’’سماجی تحفظ اور تخفیفِ غربت‘‘۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی طرف جو کئی مہینے بار بار لگاتار برقع پہن کر ’’بی آئی ایس پی‘‘ مراکز کا دورہ کرتی رہی تاکہ بے نظیر بھٹوانکم سپورٹ پروگرام بارے زمینی حقائق سے آگاہ ہوسکے۔

میں نہیں جانتا کہ ثانیہ نام کی اس خاتون کو قائداعظمؒ کے ساتھی عبدالرب نشتر صاحب مرحوم و مغفور کے خاندان سے کیا نسبت ہے ؟ ہے بھی یا نہیں؟لیکن اگر ہے تو ڈاکٹر ثانیہ نشتر پر یہی کچھ جچتا ہے کہ مملکت خداداد میں دیانتداری اور دردمندی سے کام کرنے کا طریقہ ہی یہ ہے۔

برا ہو ان لوگوں کا جو اس ملک میں انسان کو فرشتے بنانے کے احمقانہ جنون میں شیطان بنا گئے ورنہ ثانیہ نشتر کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ سونے کی چوڑیاں پہن کر، گاڑیوں سے نکل کر’’ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کے وظیفے وصول کیے جاتے رہے جو ایسا ہی ہے جیسے کوئی بے رحم، بے حیا کسی بھوکے بچے کے منہ سے نوالا چھین لے، کسی گداگر کا کشکول بیچ کھائے، کسی جاں بہ لب مریض کی دوا فروخت کر دے۔

حق دار وہ تھے جن کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہیں تھی۔ ثانیہ کی ایکسرسائز کے نتیجہ میں 16ارب روپے کی بچت ہوگی جس کے بارے امید ہے کہ مستحق لوگوں تک پہنچے گا۔ میں مدتوں سے دہرائے جا رہا ہوں کہ ہمارا اصل مسئلہ اقتصادیات نہیں اخلاقیات کی تباہی و بربادی ہے۔ اس ملک کی اقتصادی بربادی بھی اس لئے ہوئی کہ حکمران اشرافیہ کی اخلاقی حالت شرمناک حد تک دگرگوں تھی۔

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہےیہاں کے نیچ سلطان کمیشن ،کک بیک کھاتے اور ٹی ٹیاں نچاتے رہے،

بیرون ملک بینک بھرتے اور جائیدادیں بناتے رہے اور ان کی یہی ’’اخلاقیات‘‘ نیچے تک سرایت کر گئی کہ متمول لوگوں کو محروم ترین لوگوں کا حق مارتے ہوئے بھی شرم نہیں آئی اور ’’ویڈیوز‘‘بناتے موت نہیں پڑتی۔

اسی رویے کا دوسرا رخ اس سےبھی بھیانک اور مکروہ ہے جسے ٹی وی پر سنتے اور اخبار میں پڑھتے ہوئےبھی متلی ہوتی ہے، گھن آتی ہے اور آدمی سوچتا ہے کہ ہم کس ماحول کا حصہ ہیں۔ شیخوپورہ کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زچگی آپریشنز کے دوران کیاہوتا رہا ؟ آپ نے بھی سنا یا پڑھا ہوگا جسے لکھنے کی سکت نہیں۔

حیوانوں سے کہیں بد ترحرکت میں خواتین بھی شامل تھیں تو یہ سوچ کر ہی آدمی دہل جاتا ہے کہ اخلاقیات کے دیوالیہ پن والایہ مرض کہیں لاعلاج ہی تو نہیں ہوگیا۔

آخر پر اک اچھی خبر جو شاید اس سال کی آخری اچھی خبر ہے کہ 2019ء میں’’ نیب ‘‘لاہور …… جی ہاں صرف’’ نیب ‘‘لاہور نے 29ارب وصول کئے جن میں سے3ارب متاثرین کو واپس دلوائے گئے۔

شاید اسی لئے’’ نیب ‘‘بہت سے شرفاء اور معززین کو بہت بری طرح رڑک رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے