گرے لسٹ میں شامل رہنے کا دھڑکا

پیر 17فروری 2020سے جو ہفتہ شروع ہوا ہے وہ کئی اعتبار سے ’’تاریخ ساز‘‘‘ شمار ہوسکتا ہے۔ اس کے دوران جو معاملات طے ہوں گے ان کے اثرات دور رس ہوں گے۔کاش ان کی اہمیت کو ہم صحافی کماحقہ اجاگر کرپاتے۔

اس ہفتے کی ابتداء میں فنانشل ٹاسک فورس (FATF)کا پیرس میں اجلاس شروع ہوجائے گا۔’’دہشت گردوں‘‘ کو ’’منی لانڈرنگ‘‘ وغیرہ کے ذریعے جو رقوم ملتی ہیں ان کی ترسیل ناممکن بنانے کے لئے یہ ادارہ قائم ہوا تھا۔اس ادارے نے ہمیں ’’گرے لسٹ‘‘ میں ڈال رکھا ہے۔اس فہرست سے باہر آنے کے لئے پاکستان کو اپنے بینکاری کے نظام میں بے شمار نئے ضوابط متعارف کروانا پڑے۔بارہا اس کالم میں ٹھوس واقعات کے حوالے دے کر یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ FATFکو مطمئن کرنے کے لئے جو ضوابط لاگو ہوئے انہوں نے بنیادی طورپر ہمارے بازارپر مسلط کسادبازاری کو گھمبیرتربنادیا۔ اپنے گھروں میں بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستانی مصنوعات خاص طورپر آلو اور کینو جیسی اجناس کی نئی منڈیاں تلاش کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

ابھی تک ہمیں کوئی ایسا بڑا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا جس کے ذریعے یہ دریافت ہوتا کہ فلاں کالعدم تنظیم کو فلاں فلاں حوالوں سے بھاری رقوم مل رہی تھیں۔ یہ رقوم فراہم کرنے والوں کے ناموں سے بھی ہم آشنا نہیں۔عمران حکومت کے شہزاد اکبر صاحب جیسے ’’جیمزبانڈز‘‘ کے ذریعے یہ اطلاعات البتہ ملتی رہی ہیں کہ آصف علی زرداری اورشہباز شریف جیسے قدآور سیاست دان کس مہارت سے بینکاری کے نظام کو اپنی ’’ناجائز دولت‘‘چھپانے اور کاروبار بڑھانے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔TTکے ذریعے وصول ہوئی رقوم یا فیک اکائونٹس کے تناظر میں اربوں ڈالر کے لین دین کا ذکر ہی ہوتا رہا۔

پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ نام نہاد عالمی برادری ویسی ہی ’’منطق‘‘ استعمال کرتی ہے جو ایک داستان میں بھیڑیا نشیب میں پیاس بجھاتے بھیڑ کے بچے کے خلاف ’’پانی کو گدلا‘‘ کرنے کا الزام لگانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

FATFکا ’’دہشت گردی‘‘ کے لئے ہوئی مبینہ فنڈنگ کو روکنے کے حوالے سے پیرس والا اجلاس ان ہی دنوں ہورہا ہوگا جب امریکہ زلمے خلیل زاد کے ذریعے طالبان سے صلح کے ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب پہنچ چکا ہوگا۔طالبان کے جس وفد سے اس ضمن میں ملاقاتیں ہوئی ہیں ان میں سے کئی افراد برسوں تک امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہوئی ’’دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں نمایاں ترین رہے ہیں۔انہیں مگر ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ کے ’’سفارت کار‘‘ شمار کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے عزت واحترام سے مذاکرات میں مصروف رکھا۔ان مذاکرات کے دوران FATFجیسے اداروں نے اس سوال پر غور ہی نہیں کیا کہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کے خلاف اٹھارہ برسوں سے جاری مسلح مزاحمت کی سرمایہ کاری کن ذرائع سے ہوتی رہی۔پاکستان میں مبینہ طورپر موجود ’’دہشت گرد‘‘ تنظیموں پر ہی توجہ مبذول رہی۔ہماری ریاست بھی FATFکے احکامات کی تعمیل میں مصروف رہی۔ شنید ہے کہ اس کو مطمئن کرنے کے لئے مناسب ضوابط لاگو کردئیے گئے ہیں۔ ’’گرے لسٹ‘‘ سے باہر آنے کی مگر قوی امید دلانے کو اب بھی ہماری حکومت یا FATFوالے تیار نہیں ہورہے۔

مجھے شدید خدشہ لاحق ہے کہ ہماری تمام تر کاوشوں کے باوجود پاکستان کے بدخواہ ممالک ہمیں آئندہ چند ماہ تک ’’گرے لسٹ‘‘ ہی میں رکھنا چاہیں گے۔ پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں رکھنے والے فیصلے کو بھی لیکن ’’مثبت صحافت‘‘ کے تقاضوں کے عین مطابق ہمارا ذمہ دار اور محب وطن میڈیا ’’بہت بڑی کامیابی‘‘ دکھائے گا۔ہم یہ ’’چورن‘‘ بیچتے پائے جائیں گے کہ ہمارا ازلی دشمن پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں دھکیلنے میں ناکام رہا۔ پاکستان خدانخواستہ اگر گرے لسٹ ہی میں موجود رہا تو ہم عاجز شہریوں کو کوئی یہ سمجھانے کا تردد ہی نہیں کرے گا کہ گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے مزید کیا تقاضے ہوئے ہیں۔

یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ٹرمپ کا امریکہ ان دنوں ہم سے بہت خوش ہے۔عمران خان صاحب کی ڈونلڈٹرمپ سے گزشتہ چند مہینوں میں یکے بعد دیگرے ایک نہیں تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ امریکی صدر ہمارے وزیر اعظم کو اپنا ’’دوست‘‘ بھی پکارنا شروع ہوگیا ہے۔اس ’’دوستی‘‘ کا ٹھوس اظہار مگر FATFکے اجلاس کے دوران بھی ہونا چاہیے۔ امریکہ اگر پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ سے نکالنے پر ڈٹ جائے تو دیگر ممالک اس کی ہاں میں ہاں ملانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں آجائے گا۔

امریکی صدر نے مگر FATFکا اجلاس ختم ہونے کے چند ہی روز بعد بھارت جانا ہے۔ وہاں کے وزیر اعظم کو بھی وہ اپنا ’’دوست‘‘ پکارتا ہے۔گزشتہ برس جب نریندرمودی امریکہ گیا تو ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں Howdy Modiوالی تقریب منعقد ہوئی۔ ٹرمپ نے اس تقریب سے جذباتی خطاب کیا۔ جواب آں غزل کے طورپر ٹرمپ کے اعزاز میں مودی کے آبائی شہر احمد آباد کے ایک سٹیڈیم میں بھی تقریب منعقد ہوگی۔ حال ہی میں ٹرمپ نے فرطِ جذبات میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ جب گجرات کے شہر احمد آباد پہنچے گا تو لاکھوں افراد کا ہجوم ایئرپورٹ سے ’’دُنیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم‘‘ تک اس کے استقبال کے لئے سڑکوں پر موجود ہوگا۔

ٹرمپ کو خودنمائی کے لئے مبالغہ آرائی کی عادت لاحق ہے۔احمد آباد کی آبادی سترلاکھ سے زیادہ نہیں۔وہاں قائم ہوا سٹیڈیم ہرگز ’’دُنیا کا سب سے بڑا سٹیڈیم‘‘‘ نہیں ہے۔محتاط ترین اندازوں کے مطابق وہاں پچاس ہزار سے زیادہ تماشائی کھپائے نہیں جاسکتے۔ ٹرمپ مگر وہاں موجود افراد کو انتہائی ڈھٹائی سے ’’لاکھوں‘‘ میں شمارکرے گا۔

2016میں امریکی صدر کا حلف اٹھانے کی تقریب کے دوران وائٹ ہائوس کے گرد جو لوگ جمع ہوئے تھے ان کی تعداد کو اس نے ’’تاریخ ساز‘‘ قرار دیا تھا۔امریکی میڈیا اس کے دعویٰ پر حیران ہوا تو اس کی ترجمان ٹی وی سکرینوں پر آکر Alternative Factsکی اصطلاح استعمال کرنے لگی۔حقائق کو ہم بدنصیب کئی صدیوں سے ’’حقائق‘‘ ہی کہتے رہے ہیں۔ٹرمپ اور اس کے وفادار مصاحب مگر اب ’’متبادل حقائق‘‘ ایجادکرچکے ہیں۔’’جو چاہیے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز‘‘ کرے والا معاملہ ہے۔شاعر کی ا ٓنکھ سے ’’محبوب‘‘ کو دیکھنے والی کیفیت ہے۔حافظ شیرازی ’’ترک شیرازی‘‘ کے چہرے پر لگے کالے (ہندوش)تل کی عقیدت میں سمرقند بخارا قربان کرنے کو آمادہ تھا۔ہمارے سوداؔ یہ دریافت کرنے میں بہت دیر لگی کہ ’’جو تیرا حال ہے-ایسا تو نہیں وہ‘‘۔محبوب کو اس کی ’’آن‘‘ میں دیکھنا ہی مگر کافی تھا۔

بھارت پہنچنے سے کئی دن قبل ہی ’’لاکھوں افراد‘‘ کی جانب سے ’’تاریخی استقبال‘‘ کے خواب دیکھتا ٹرمپ شاید پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ سے نکالنے میں امریکی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے ’’دوست‘‘نریندرمودی کو رنجیدہ نہیں کر نا چاہیے گا۔ طویل المدتی گیم یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ میں رکھتے ہوئے اس امرکو یقینی بنایا جائے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین ہوئے معاہدے کے بعد طالبان کے دیگر افغان فریقوں سے جو مذاکرات ہونا ہیں ان کے دوران پاکستان طالبان کو ہاتھ ہولارکھنے کے لئے اپنااثرورسوخ استعمال کرتا رہے۔

ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی FATFکی گرے لسٹ میں موجودگی کے اسباب اپنی سرشت میں خالصتاََ ’’تکنیکی‘‘ نہیں ہیں۔بنیادی طورپر یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔مقصد اس کا پاکستان پر سفارتی اور اقتصادی دبائو بڑھانا ہے۔سفارتی اور اقتصادی دبائو کی وجوہات اور تفصیلات کا مجھ جیسے صحافیوں کو کماحقہ علم نہیں ہے۔’’لفافے‘‘ وصول کرنے کی علت نے تحقیق کی جرأت چھین لی ہے۔FATFکے اجلاس میں جو بھی فیصلہ ہوا اسے کم از کم میں اپنی ’’کامیابی‘‘ ہی شمار کروں گا۔ربّ کریم سے مگر فریاد کرنے کو مجبور ہوں کہ ہم گرے لسٹ سے باہر نکل آئیں۔ دُنیا کو بالآخرایک ’’نارمل‘‘ملک نظر آئے جس کے بینکوں کے ذریعے ادا ہوئے چیک فوری کیشن ہوں اور غیر ملکوں سے ہماری برآمدات کی قیمت کی صورت جو رقوم آتی ہیں ان کی ترسیل میں ’’دہشت گردی کے لئے فنڈنگ‘‘ کے نام پر اذیت دہ رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے