”کیا دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے؟

عالمی افق پردہائیوں سے حکمرانی کرنے والے امریکہ کو چائنہ کی معاشی پالیسیوں نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، چین کے وسیع ہوتے اقتصادی دائرہ کار سے جہاں امریکہ عالمی اجارا داری چھن جانے کے خوف کا شکار ہے وہیں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ امریکہ چین کو حریف کے طور پر لے رہا ہے اور واحد سپر پاور ہونے کا زعم ٹوٹنے کے خوف میں مبتلا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری رقابت سے ترقی پزیرممالک تشویش کا شکار ہیں تو وہیں نیو ورلڈ آرڈر کی بازگشت نے ترقی پزیر ممالک کیلئے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے کہ نجانے اس سرد جنگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے۔

اگر چین اور امریکہ میں معاشی و عسکری رسہ کشی جاری رہی اور یہ سرد جنگ زور پکڑتی ہے تو اس کے اقوا م عالم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟اس صورتحال میں جنوب ایشیاء کے ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک پاکستان اور بھارت کا رجحان کیا ہوگا؟ اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے کیسے نمٹا جاسکے گا، امن کو کیسے برقرار رکھا جا سکے گا؟ معاشی استحکام کیلئے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟۔ایسے کئی سوالات ہیں جن پر مباحث ہو رہے ہیں اور ان سوالوں کا جواب جاننا وقت کے ساتھ اہم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ عالمی طاقتوں اور ابھرتی عالمی طاقتوں میں جاری خاموش سیاسی معاشی، اقتصادی اور عسکری محاذ آرائی براہ راست پوری دنیا کے امن و سلامتی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

یہ سوال ہرشعور رکھنے والے انسان کے دماغ میں پنپ رہا ہے کہ”کیا دنیا ایک اور سرد جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے؟“۔ اسی موضوع کی مناسبت سے سرگودھا یونیورسٹی نے ویبینار کا انعقاد کیا جس میں عالمی تعلقات کے ماہرین نے ابھرتی طاقت چین اور امریکہ کے درمیان تجارت،دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت خارجہ پالیسی کے لحاظ سے پائی جانیوالی رسہ کشی، مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان سرد جنگ بڑھنے کے امکانات اور اس کے بالخصوص جنوب ایشیاء کی چھوٹی وبڑی معاشی اکائیوں اور دنیا پر مرتب ہونے والے اثرات پر مفصل گفتگو کی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف چائنہ سٹڈیز کے تحت منعقدہ ویبینار میں ڈائریکٹر آف دا انسٹی ٹیوٹ فار ساؤتھ ایشیا سٹڈیز چائنہ کے پروفیسر ڈاکٹر ہو شی شنگ، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹریٹجی اینڈ پالیسی اینالسز شنگھائی یونیورسٹی چائنہ سے ڈاکٹر گوشوتانگ، ڈیپارٹمنٹ آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز یونیورسٹی آف برمنگھم انگلینڈ سے فلیپو بونی، ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈاکٹر سلمیٰ ملک،وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق احمد اور ڈائریکٹر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف چائنہ سٹڈیز ڈاکٹر فضل الرحمن نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔

اس موقع پر ڈاکٹر ہو شی شنگ نے کہا کہ امریکہ چین پر عسکری و معاشی برتری چاہتا ہے اور اس مقصد کیلئے وہ چین کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے طاقت کا توازن اپنی طرف موڑنے کی بجائے اقتصادی ترقی کو اہمیت دی ہے اور چین ناصرف خود تجارتی اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنے ساتھ لیکر چل رہا ہے۔ چین براہ راست4ارب انسانوں کی معاشی ترقی کا باعث بننے جا رہا ہے جبکہ امریکہ کی اپروچ قدرے مختلف ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کسی بھی طرح دنیا کے لیے موزوں نہیں، سابقہ سرد جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتاہے ان ادوار میں عسکری محاذ آرائی زیادہ اور معاشی ترقی محدود رہی۔ حالیہ سرد جنگ روس اور امریکہ کی سرد جنگ سے قدرے مختلف ہو گی، اس سر د جنگ میں کسی بھی قسم کی عسکری محاذ آرائی کے امکانات کم ہیں، اس سرد جنگ میں ٹیکنالوجی کے محرکات کارفرما ہیں اور ٹیکنالوجی ہی طاقت کے جھکاؤ کو طے کرے گی۔

ڈاکٹر گوشوتانگ نے کہا کہ آنے والا وقت ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کا ہے کہ جس میں طاقت کا توازن کسی ایک سپر پاور کے پاس نہیں رہے گا۔امریکہ اکلوتی سپر پاور ہونے کا دعویدار نہیں رہ سکتا کیونکہ چین خود ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی معاشی ترقی کیلئے ساتھ لیکر چل رہا ہے جس سے طاقت کی اکائی کا تاثر مٹ جائے گا اور امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ طاقت کا ہب کوئی ایک ملک نہیں رہا۔

ڈاکٹرفلپ بونی نے کہا کہ بیلٹ ایند روڈ منصوبہ چائنہ کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ منصوبہ ہی چین اور امریکہ کے درمیان مقابلہ کی اہم کڑی رہے گا۔ دونوں ممالک ہی عالمی معیشت پر اجارہ داری کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”یہ امریکہ میں انتخابات کا سال ہے اور ان انتخابات میں امریکہ چین پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرے گا اور سرد جنگ میں بڑھوتری کے خدشات جنم لیں گے“۔

ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے کہا کہ ابتدا میں امریکہ نے چین کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھا تھا اور چین کو اہمیت نہیں دی، چین نے بہتر منصوبی بندی اور دیر پا پالیسی مرتب کی جس کے اثرات غیر محسوس انداز میں ظاہر ہوئے۔ چین نے عسکری محاذ آرائی کی بجائے متوازن پالیسی اپنائی اور معاشی استحکام کی جانب بڑھا جبکہ دیگر ترقی پزیر ممالک نے بھی چین کے اقتصادی ماڈل سے استفادہ کرتے ہوئے معاشی ترقی کی۔ چین نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بغیرمحاذ آرائی کے سب معاشی استحکام حاصل کر سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔انہوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ آنے والے وقتوں میں افغانستان ایک مرتبہ پھر سرد جنگ کا مرکز بن جائے گا جس سے خطے کے ممالک براہ راست متاثر ہوں گے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے کہا کہ دنیا ایک نئی سرد جنگ برداشت نہیں کر سکتی۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں طاقتور ممالک زوال کا شکار ہوئے اور نئی طاقتیں ابھر کر سامنے آئیں، چین کی ابھرتی طاقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ امریکہ بطور سپر پاور اچھا کردار ادا نہیں کر رہا اور چین مخالفت کو پروان چڑھا رہا ہے۔امریکہ اپنی عالمی ذمہ داریوں کو نہیں نبھا پا رہا جبکہ چین نتیجہ خیز معاشی اصلاحات سے ابھر کر سامنے آیا ہے، چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے ذریعے پوری دنیا کو معاشی ترقی کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ سرد جنگ کو پروان چڑھاتاہے تو اس کے پوری دنیا پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ اور چین کے درمیان بہتر تعلقات کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکہ اور چین میں جاری سرد جنگ کو ختم کرنے کیلئے بہتر سفارتی کردار ادا کر رہا ہے اوریہ کوششیں خطے پر منڈلاتے خطرات میں کمی کا باعث ہیں۔

دنیا بھر سے ہزاروں سوشل میڈیا صارفین نے ویبینار میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور ماہرین سے مختلف سوالات بھی کیے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف چائنہ ستڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمن نے ویبینار کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ لیکچر سیریز کے تحت ایسے مزید ویبینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔

انیسویں صدی کے اختتام تک عالمی طاقت وہی ملک رہا جس کے پاس عسکری طاقت تھی لیکن اب چین نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عسکری طاقت ہی سب کچھ نہیں، اقتصادی طاقت اب عالمی اجارا داری کا باعث ہے۔دنیا بھر میں طاقت کے توازن میں بدلاؤ آ رہا ہے،یونی پولر ورلڈ آرڈر سے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کی جانب چین بڑی خاموشی سے سفر کر رہا ہے۔آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عالمی سطح پر طاقت کا توازن کسی ایک ملک کے پاس رہے گا یا نہیں، کیا امریکہ کسی اور طاقت کو تسلیم کر پائے گا؟ یہ سب سوال اہم ہیں لیکن اس سے بھی اہم یہ سوال ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک اس صورتحال میں ملک کو کیسے آگے لیکر چلیں گے۔ اس ضمن میں مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں ملکی استحکام متاثر ناں ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے