وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری نے شر پھیلانے والے کو بھاگنے میں سہولت فراہم کی: متحدہ سنی کونسل

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں‌ متحدہ سنی کونسل کے زیراہتمام ”عظمت صحابہ واہل بیت مارچ” سے خطاب کرتے ہوئے مختلف مذہبی مسالک کے قائدین نے کہا ہے کہ توہین صحابہ و اہلبیت کرنے والوں کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ ہم پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے ہوکر قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہوکر توہین صحابہ پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔پاکستان کی سرزمین پر صحابہ کرام واہلبیت عظام کی توہین کو روکنے کے لئے بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث تینوں مکاتب فکر ایک پلیٹ فارم پر ہیں.

مارچ کے مقررین نے کہا کہ حکومت پاکستان وزیراعظم پاکستان اور مقتدر حلقے گستاخیوں میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی نہیں کررہے، ہم مزید وقت نہیں دے سکتے،مقدس شخصیات کی توہین کے بارے میں قانون میں کمزوری دور کرکے موثر قانون سازی کی جائے جلسوں کے ذریعے کاروباری زندگی کو معطل کرنے پر پابندی لگائی جائے،مشترکہ اجلاس میں مدارس اور مساجد سے متعلق بل منظور ہوا وہ قبول نہیں

اہلسنت والجماعت کےسربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ وزیراعظم اور پارلیمنٹ سے مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ یہاں پر ایک گستاخ نہیں تین سو ایف آئی آر ہیں . صوبہ سندھ کی ہزاروں کے قریب ایف آئی آر ہیں ، ملک میں صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کی توہین کی گئی چیف جسٹس سپریم کورٹ کب تک خاموش رہیں گے انہوں نے کہا کہ ہم یہاں روٹی کپڑا اور مکان کیلئے نہیں آئے ہم یہاں عظمت صحابہ کے تحفظ کیلئے آئے ہیں ، اہلبیت اور صحابہ کرام کے گستاخ کیلئے سزائے موت کا قانون بنایا جائے

جماعت اسلامی کے رہنماسینیٹر مشتاق احمدنے کہاہے کہ مغربی دنیاکا ہدف اسلام ہے، ناموس رسالت اور ناموس صحابہ کے خلاف انہی کی سازشیں دہرائی جاتی ہیں، مغرب کے دباؤ میں پاکستان کے مفاد کوداؤ پر لگانا ناقابل قبول ہے آج دنیا کے کونے کونے میں اسلام ہے تو حضرات صحابہ کرام کی محنتوں سے ہے.

اس مارچ میں خطاب کرنے والوں نے وزیراعظم کے معاون زلفی بخاری پر الزام لگایا کہ ”ان نے گستاخ صحابہ کوبھاگنے میں سہولت کاری دی اور زلفی بخاری کی گرفتاری کا مطالبہ کیا.”

مذہبی رہنماوں کا کہنا تھا کہ حکومت چودہ نئے قوانین پاس کر چکی ہے، منی لانڈرنگ رکنی چاہیے، اس میں کوئی دینی تنظیم ملوث نہیں،مغربی آقاؤں کو خوش کرکے پاکستان کے مفاد کو داؤ پر لگانا قابل قبول نہیں، مغرب کی غلامی کیلئے پارلیمنٹ کو پاؤں تلے روندا گیا ہے اب اسلام آباد کے عوام مدرسے مساجد سکول اور ہسپتال کیلئے جائیداد وقف نہیں کرسکتے، یہ قابل قبول نہیں ہے.

خیال رہے کہ ہجری سال پہلے اسلامی مہینے محرم میں اسلام آباد کی ایک امام بارگاہ میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک ذاکر آصف علوی کی تقریر کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سنی مکتب فکر سے وابستہ مذہبی تنظیموں‌اور جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا. آصف علوی نامی ذاکر کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو گیا تھا لیکن سنی مذہبی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ آصف علوی کو حکومتی عہدے داروں کی ساز باز سے پاکستان سے باہر بھگایا گیا ہے.

اس دوران دس محرم کو کراچی میں ایک جلوس کے دوران مذہبی شخصیات کی ‘توہین’ پر مبنی مواد لائیو نشر کرنے پر سنی جماعتوں‌کی جانب سے شدید ردعمل آیا تھا جس کے بعد پاکستان میں‌الیکٹرانک میڈیا کی نگرانے کرنے والے ادارے پیمرا نے چینل 24 نیوز کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا.

محرم میں سامنے آنے والے اس تنازعے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی فرقہ وارانہ مواد پر مبنی ٹرینڈز چلنے کا سلسلہ شروع گیا ہے. 31 اکتوبر 2020 کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی ممکنہ شیعہ سنی تنازعے سے متعلق ٹویٹ کی تھی. انہوں نے لکھا تھا ”بدقسمتی سے اس دوران ایسے فتنہ گر عناصر کی شرانگیزیاں میرےعلم میں لائی گئیں جنہوں نےاس موقع پر فرقہ واریت کی آگ بھڑکانےکی کوشش کی۔ شرپسندوں کےاس گروہ سےاب میں نہایت سختی سےنمٹوں گا۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے