باجوڑ کے پانچ دیہات کے ہزاروں بچے ایک کمیونٹی سکول تک محدود۔۔۔۔

قبائلی علاقے میں فروغ تعلیم کی ضرورت یوں بھی ہے کہ قیام پاکستان سے قبل بھی یہ علاقے پسماندگی کا شکار رہے ۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی سابقہ فاٹا کو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مختلف حکومتی ادوار میں غیور قبائلیوں کی مشکلات کم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ سمجھنے کے لئے سقراط جیسی دانش کی ضرورت ہرگز نہیںکہ اگر عصر حاضر کے تقاضوں سے کسی بھی علاقے کو نا بلد رکھا جائے گا تو وہاںکئی قسم کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔مسلمہ حقیقت ہے کہ علم سے محرومی غربت اور پسماندگی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، قبائلی علاقوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ دسمبر 2018کی ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم(EMIS)کی رپورٹ کے مطابق فاٹاکی سات ایجنسیوں اور چھ نیم قبائلی علاقوں میں 69فیصد لڑکے اور 79فیصد لڑکیاں کلاس پنجم تک کی تعلیم کے بعد سکول چھوڑ دیتے ہیں، مڈل اور سکینڈری سکول لیول پر مزید 50 فیصد لڑکیاں تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر بیٹھ جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ قبائلی علاقوں میں کل 5,890 سکول ہیں جن میں رجسٹرڈ طلبہ کی تعداد 677,157 ہے جبکہ تعلیمی بجٹ 12بلین رکھا گیاہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے بیشتر سکول بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، مثلا محض 43 فیصد سکولوں میں بجلی کی سہولت میسر ہے جبکہ محض 42.2 فیصد سکولوں میںپینے کا پانی دستیاب ہے، 45 فیصد سکولوں میں بیت الخلا کی سہولت ہے جبکہ 70فیصد سکولوں کی چار دیواری ہے۔، قبائلی علاقوں میں اساتذہ کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ مثلا قبائلی اضلاع کے سکولوں میں 20709 ٹیچرز موجود تھے جن کی تعداد2017-18 تک کم ہوکر 18,621 رہ گئی ہے، فاٹا کی درسگاہوں میں 5000 آسامیاں خالی ہیںجن میں ٹیچرز کے علاوہ دیگر عملہ بھی شامل ہے۔ قبائلی اضلاع میں اب بھی 1940 کے حالات کے مطابق 100طلبہ کو دو ٹیچرز دو کمروں میں تعلیم دے رہے ہیں جو کسی طور پر جدید تدریسی اصولوں کے مطابق نہیں۔ خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردوںکا 1500سکولوں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچانا بھی تعلیمی سرگرمیوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔

افغان سرحد کے قریب ضلع باجوڑ تحصیل سلارزئی میں واقع کاپر گٹ ، قدم چینہ ، نحقی سمیت پانچ گاوئں ایسے ہیں جہاں اب تک ایک بھی سرکاری سکول ہی نہیں ہے۔ 2016 میں پہلی بار ایک ایک غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے یہاں کمیونٹی سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تقریباً تین سال تک یہ سکول چلتا رہا۔لیکن بعدازاں غیر سرکاری تنظیم کا پراجیکٹ ختم ہوجانے اور فنڈز کی کمی کے باعث 2019 میں انہوں نے سکول بند کر دیا ۔ یہ اعلان ان دیہات کے درجنوں طلباءکے لئے ک مایوس کن ثابت ہوا ۔ غیر سرکاری تنظیم کے وہ سکول بہت سے والدین کیلئے امید کی کرن تھا۔ اُس کے بند ہونے کی خبر سب کے لئے مایوس کن تھی۔ جب یہ خبر سعودی عرب تک پہنچی تو گاو¿ں کے ایک نوجوان طاہر خان نے سکول کی بحالی کا چیلنج قبول کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سعودی عرب میں مقیم باجوڑ کے درجنوں افراد سے ملاقاتیں کی اور انہیں سکول کے فنڈ کے لیے رقم دینے پر راضی کیا۔ مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد طاہر خان کے پاس سکول چلانے کیلئے رقم جمع ہو گئی اور اب یہ سکول ان پانچ دیہات کے سعودی عرب میں محنت مزدوری کے سلسلے میں مقیم افراد کے تعاون سے چل رہا ہے۔ سکول کیلئے فنڈ وہ چندہ کرکے اکٹھا کرتے ہیں اور اخراجات خود برداشت کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے سکول میں تعلیم مقامی بچوں اور بچیوں کیلئے مفت ہے۔ فی الحال ان پانچ دیہات کے طلباءتعلیمی سلسلے کی بحالی پر خوش ہیں۔ ان دیہاتوں کی مجموعی آبادی 5000 سے اوپر ہے۔ برسوں سے یہاں کے بچے بنیادی تعلیم مکمل کئے بغیر جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں۔دو سال کے عرصے میںاس کمیونٹی سکول میں طلبہ کی تعداد دگنی ہوچکی ہے۔طاہر خان پر گٹ کا واحد تعلیم یافتہ شخص ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ سعودی عرب میں ایک ٹریول ایجنسی میں بطور اسسٹنٹ کام کررہے ہیں۔اس کمیونٹی سکول کے مرکزی کردار اور روح رواں طاہر خان کہتے ہیں کہ میں بذات خود بچپن میں سکول جانے کیلئے سردی اور گرمی برداشت کی ہے۔ اسی لئے میں نے سعودی عرب میں بسنے والے ان دیہات کے 40 سے زائد افراد کو ایک کمیونٹی سکول کے لئے ہر ماہ تھوڑا سا عطیہ کرنے پر مجبور کیا۔ طاہر خان کہتے ہیں۔ ہمارے اس کمیونٹی سکول کے پرنسپل ڈونر ڈرائیور اور مزدور ہیں۔ وہ عظیم انسان ہیں۔ وہ آنے والی نسل کے لئے ترقی کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں۔ سکول میں فی الحا ل کوئی عمارت نہیں ہے۔ فی الحال یہ سکول مٹی کے تین کمروں والے ڈھانچے پر مشتمل ہے۔زمین کا مالک کوئی کرایہ وصول نہیں کرتا۔ سکول میں چار اساتذہ اور ایک معاون ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم ہر وقت ارباب اقتدار واختیار کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہیں کہ ہماری حالت پر رحم کرکے یہاں سکول کی منظوری دی جائے۔مگر جب تک ان حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول نہیں ہوتی تب تک ہم اپنا یہ ٹوٹا پھوٹا سفر جاری رکھیں گے۔

سکول کے سب سے سنیئر استاد شمشاد خان نے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اپنے طلبا کی طرح ، وہ بھی اسکول تک پہنچنے کے لئے پانچ کلو میٹر کا پیدل سفر کرتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ کمیونٹی اسکول میں معمولی تنخواہ پر خوشی سے پڑھاتے ہیں۔

اس سلسلے میں اس حلقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی گل ظفر خان باغی نے بتایا کہ انہوں نے آنے والے اے ڈی پی میں اس علاقے کیلئے پرائمری سکول شامل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد اس علاقے میں ایک بوائز اور ایک گرلز پرائمری سکول قائم کیا جائے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ سابقہ نمائندگان نے جان بوجھ کر ان علاقوں کو تعلیم کی سہولت سے محروم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بارڈر ایریاز میں بھی تعلیم کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں گے تاکہ ہمارے بچے کارآمد شہری بنیں۔
اس بارے میں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر باجوڑ حاجی نذیر ملاخیل نے بتایا کہ ہم نے 2020,21کے اے ڈی پی میں یہاں دو سکول کیلئے پروپوزل بھیجا جا چکا ہے ۔ ان پانچ گاو¿ں میں مناسب جگہوں پر ایک گرلز اور ایک بوائز پرائمری سکول ترجیحی بنیادوں پر تعمیر ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ یہاں قائم کمیونٹی سکول کے ساتھ بھی تعاون کریں اور انہیں کچھ کتابیں وغیرہ محکمہ تعلیم کے طرف سے دے سکیں۔

ماہر ین تعلیم کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں علم کی روشنی سے نوجوانوں کو مثبت سر گرمیوں کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے جس کے لئے پہلے سے موجود سرکاری سکولوں میں سٹاف کے علاوہ بنیادی ضروریات کی فراہمی کویقینی بنانے کے ساتھ ساتھ نئے سکولوں کے لئے ٹھوس اقدمات بھی اُٹھانے ہو نگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے