آن لائن کلاسز ہم لے نہیں سکتے امتحان میں کیا کریں گے؟انٹرنیٹ ہمارا بھی حق ہے ۔ضم شدہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی ضرورت سب سے زیادہ ہے ۔
یہ کہنا ہے ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے نجیب اللہ کا جو پشاور یونیورسٹی میں ایل ایل بی سیکنڈ ایئر کا طالبعلم ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ جب کرونا وائرس کی وجہ سے پہلی بار لاک ڈاون ہوا تو اُس وقت اُنکی فریش کلاسز شروع نہیں ہوئی تھیں یہ گاوں میں تھے اُنکو وہاں پتہ چلا کہ آن لائن کلاسز ہونگی۔نجیب اللہ کے مطابق انکے نئے سیشن کا اغاز آن لائن کلاسز سے ہوا لیکن ان لائن کلاسز کے دوران انکے علاقے میں انٹرنیٹ سروسز موجود نہیں تھی۔ ‘ہمیں فون پر بتایا گیا اور دوست بار بار رابطہ کر رہے تھے کہ آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں، اس وجہ سے میں ذہنی طور پر بہت متاثر ہوا، میرے لئے سیٹل ایریا میں جانا بھی مشکل تھا، گاڑیاں نہیں تھی اور لاک ڈاون تھا، ہاسٹلز بھی بند تھے اس وجہ سے میرے دو مہینے کی کلاسز ضائع ہوگئیں’ نجیب اللہ نے بتایا۔
نجیب اللہ کا کہنا ہے کہ پھر یونیورسٹیاں کھول دی گئی، کلاسز شروع ہوئیں ، لیکن تین ہفتے کے بعد لاء کالج میں ایک مثبت کیس سامنے آنے پر کلاسز پھر سے بند کر دی گئیں جس کے بعد اب تک یونیورسٹی اور ان کا کالج بند ہیں۔ہمیں ایک مہینہ بھی نہیں پڑھایا گیا، اب فروری میں ہمارا امتحان ہو رہا ہیں ہم اس میں کیا کرینگے، یہ مسئلہ صرف میرا نہیں سابقہ فاٹا کے سب طالبعلموں کا ہے۔ یاد رہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے بند کیا ہے تاہم اس دوران آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن قبائلی اضلاع کے طلباء کا کہنا ہے انکو آن لائن کلاسز لینے میں سخت دشواری کا سامنا ہے کیونکہ انکے علاقوں میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا۔
آن لائن کلاسز نے قبائلی اضلاع کے 20000 سے زائد طلباء و طالبات کو فائدے کی بجائے نقصان سے دوچار کیا ہے کیونکہ ضم اضلاع کے 90 فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے اور وہاں پی ٹی سی ایل کی سہولت سے حاصل کردہ انٹرنیٹ سروسز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ٹرائبل یوتھ موومنٹ کے مرکزی صدر خیال زمان اورکزئی کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز میسر نہیں، کچھ علاقے ایسے ہیں کہ وہ موبائل سروس بھی کام نہیں کر رہا جن میں اپر مہمند، اپر اورکزئی، اپر کرم، جنوبی اور شمالی وزیرستان وغیرہ شامل ہیں جہاں تھری جی اور فور جی تو دور کی بات موبائل نیٹ ورک کی سہولت نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کو پہلے سے انٹرنیٹ کی ضرورت تھی لیکن اب اس وجہ سے بھی لازمی بن چکا ہے کہ انکے طلباء ہزاروں کی تعداد میں ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
جب پہلی دفعہ لاک ڈاون لگا تو اس وقت بھی آن لائن کلاسز سے محروم رہ جانے کی وجہ سے ہمارے طلباء متاثر ہوئے اب دوبارہ تعلیمی ادارے بند کئے گئے ہیں اور آن لائن کلاسز کا اغاز کیا گیا ہے اور انٹرنیٹ تاحال نہیں ہے اس وجہ سے نہ صرف ان کو امتحانات بلکہ مستقبل میں بھی مسائل کا سامنا ہوگا۔
صدر ٹرائبل یوتھ موومنٹ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ دن قبل پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا جس میں انکا مطالبہ ضم اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی تھا، ہم پچھلے دو سال سے فریاد کر رہے ہیں، ملک کے دیگر حصوں کی طرح لوگ جس طرح اس سے مستفید ہو رہے ہیں، اس کی اہمیت ہے تو یہ حق ہمیں بھی دیا جائے۔
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والا سماجی کارکن سید محمد بھی قبائلی اضلاع کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں عدالت بھی جاچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ کی حوالے سے وہ اسلام آباد ہائیکورٹ گیا، اس سے پہلے وہ اپنے تمام پارلیمنٹرینز سے بھی ملے تھے ۔ انہوں نے پریس کانفرنس اور احتجاج بھی کئے جس کے بعد ہائیکورٹ جانے پر مجبور ہوئے ہائیکورٹ کا دروازہ اس امید پر کھٹکھٹایا کہ وہاں سے انصاف ملے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلی سماعت میں ہائیکورٹ کے ریمارکس تھے کہ آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت انٹرنیٹ ان کا بنیادی حق ہے اور ضم اضلاع کو انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جائے لیکن ابھی تک صوبائی اور وفاقی حکومت اس مسئلے کی حل میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
16 نومبر پر سماعت کا دن مقرر تھا، لیکن تحریک لبیک کے احتجاج کی وجہ سے سماعت موخر کر دی گئی ابھی نئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ۔انھوں نے کہا کہ وہ پھر جائیں گے اور سینئر وکلاءسے بھی ملیں گے، اگر ہائیکورٹ سے کوئی ریلیف نہیں ملا تو میں سپریم کورٹ آف پاکستان جائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے طلباء بہت متاثر ہو رہے ہیں، اب تو سکول کالجز اور یونیورسٹیوں میں آن لائن تعلیم پالیسی پر کام جاری ہے جس سے ہزاروں قبائلی طلباءمتاثر ہورہے ہیں، اس جدید دور میں انٹرنیٹ کی بغیر زندگی نامکمل ہے، دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے انٹرنیت کی عدم دستیابی کی وجہ سے قبائلی طلباﺅ طالبات کی نہ صرف تعلیم متاثر ہو ہی ہے بلکہ ریسرچ ورک اور آن لائن داخلوں میں بھی ان کو مسائل کا سامنا ہے۔
سید محمد نے کہا کہ ضم اضلاع میں انٹرنیٹ کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، ہم پہلے ہی تمام تر سہولیات سے محروم رہ چکے ہیں اب یہ ڈیجیٹل رائٹ بھی نہیں دیا جا رہا۔وزیراعظم عمران خان نے بھی رواں برس مارچ کے مہینے میں ضلع مومند کے دورے کے موقع پر قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کا مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے ہدایات جاری کی تھی لیکن ابھی تک انٹرنیٹ کامسئلہ حل نہ ہوسکا۔
قبائلی ملک مثل خان کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے بچے پہلے سے اندھیروں میں تھے جو تعلیم اور شعور سے بہت دور تھے پھر فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہوا تو کچھ امید پیدا ہوگئی کہ اب قبائلی عوام بھی اندھیروں سے نکل آئیں گے لیکن افسوس کی بات ہے اس جدید دور میں بھی قبائلی عوام انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ دور میں انٹرنیت انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے، دیگر شعبوں کی طرح تعلیم میں بھی انٹرنیٹ کا کلیدی کردار ہے جب سے کرونا وبا آئی ہے اس وقت سے سکول کالجز اور یونیورسٹیوں کی چھٹیاں ہے، ملک کے باقی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے، ان کے امتحانات اور کلاسز آن لائن ہو رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ضم اضلاع کے طلباء انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قبائلی اضلاع میں فوری طور پر انٹرنیٹ سروسز بحال کیا جائے، کیونکہ وہاں امن ہے، تقریبا 80 فیصد متاثرین واپس اپنے گھروں کو جا چکے ییں تو وہاں انٹرنیت سروسز بحال کیا جائے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی بے نظیر ویمن یونیورسٹی کی طالبہ جمائمہ آفریدی کا کہنا ہے کہ طالبعلموں کی نسبت قبائلی طالبات کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ لڑکے تو کہیں جاکر یا پہاڑ پر چڑھ کرآن لائن کلاسزلے لیتے ہیں لیکن طالبات کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ کہیں جاکر آن لائن کلاسز لے سکیں اور یوں ان کی کافی کلاسز مس ہوجاتی ہے۔
جمائمہ آفریدی نے بتایا کہ پہلے لاک ڈاون کے دوران جب انکی یونیورسٹی بند ہوئی تو وہ اپنے گھر چلی گئی جس کی وجہ سے ان کی ساری کلاسز ضائع ہوگئی لیکن اس مرتبہ آن لائن کلاسز لینے کے لیے انہوں نے پشاور میں رہائش اختیار کی ہے۔
خیبر پختونخوا پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر عبدالحمید آفریدی خو خود سابقہ فاٹا سے تعلق رکھتا ہے کا کہنا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی بندش کے حق میں نہیں ہیں۔ ‘ہمارے کالجز کا سیشن اگست سے شروع ہوتا ہے بی ایس کی کلاسز ہم جولائی سے بھی شروع کرتے ہیں ہم نے کرونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد سیشن کا باقاعدہ آغاز کیا، ایس او پیز کی تحت بہترین کلاسز ہو رہے تھے، اعلی حکام نے کالج کا وزٹ کیا، ایس او پیز سے وہ مطئن تھے، ہمارے پاس تعداد اتنی تھی کہ وہ کنٹرول کرنا ہمارے لئے اسان تھا لیکن پھر تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا، ہم سمجھتے ہیں کہ دوبارہ تعلیمی ادارے بند کرنے سے طلباءکو ناقابل تلافی نقصان ہوگا’ عبد الحمید آفریدی نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں انٹرنیت نہیں ہے بجلی نہیں ہے، وہاں دیگر سہولیات نہیں ہیں، وہاں کالجز میں انٹرنیٹ نے ہونے کی وجہ سے صرف طلباءکو نہیں اساتذہ کو بھی مسائل کا سامنا ہیں، وہاں تعداد بھی اتنی نہیں ہے، ہم حکومت کو کہتے ہیں کہ ان طلباء و طالبات کی خاطر سکول کھول دیں ان طلباءکا ہم خیال رکھیں گے۔
عبد الحمید آفریدی کے مطابق ضم اضلاع بہت پسماندہ ہیں، آن لائن کلاسز کیلئے لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون کی ضرورت ہوتی ہے یہ ہر طالب علم کی بس کی بات نہیں ایسے طلباءہیں جو سادہ موبائل نہیں خرید سکتے وہ سمارٹ فونز کیسے خریدیں گے؟
اور ویسے بھی آن لائن کلاسز کالج کا متبادل نہیں ہوسکتے، ادارے میں علمی ماحول ہوتا ہے وہاں زندگی کی اصول سکھائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے ترجمان پروفیسر نعمان کا کہنا ہے یونیورسٹی انتظامیہ نے ایسے تمام طلباءکے لیے ہاسٹلز کھول رکھے ہیں جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاسٹلز میں ان طلباءکو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور وہ آسانی سے آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے طلباء جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے وہ یونیورسٹی پرووسٹ میں اپنی درخواست دے سکتے ہیں کہ انکے علاقے میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا تو انکو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دی جائے جس کے بعد پرووسٹ اپنے طور پر چھان بین کرتا ہے کہ آیا واقعی درخواست دینے والے طالبعلم کے علاقے میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا تو اسکے بعد ایسے طالبعلم کو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔
اگرچہ پشاور یونیورسٹی نے آن لائن کلاسز کی خاطر طلباءکے لیے ہاسٹلز کے دورازے کھول رکھے ہیں تاہم بعض یونیورسٹیوں نے ہاسٹلز بھی بند کئے ہیں جس کی وجہ سے ایسے طلباءکا وقت جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے ضائع ہورہا ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبعلم فدا کوہاٹ یونیورسٹی میں ایم بی اے کا سٹوڈنٹس ہےاور یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے اس کا کہنا ہے کہ دوسری بار تعلیمی اداروں کی بندش سے ان کا ہاسٹل بھی بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مستقبل کیلئے بہت فکر مند ہے کیونکہ انکے علاقے میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا۔