اسلام آباد میں ہونے والی دو روزہ تعلیمی اور تربیتی ورکشاپ میں سنیٹر کرشنا کماری نے یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان اپنے آپ پر یقین رکھیں اور پاکستان میں مذہب اور ثقافتی تنوع کو ایک نعمت سمجھیں ۔انہوں نے سندھ کے ایک پسماندہ گاؤں میں جبری مشقت سے لیکر سینیٹ آف پاکستان کا رکن بننے تک کے سفر کی داستان سنائی۔ سینیٹر کماری کے مطابق انکے مذہب اور خاتون ہونے نے انکے تعلیمی تسلسل میں کافی مشکلات پیدا کی لیکن ان کے والد اور خاوند نے ہمیشہ ان کی مدد اور تعاون کیا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام مشکلات کے باوجود وہ اس بات کی جیتی جاگتی ثبوت ہے کہ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے ان تھک محنت کرنے والوں کیلئے ہمیشہ راستے ہموار کئے۔ کرشنا کماری نے بتایا کہ ان کے والد انہیں پڑھانا چاہتے تھے ۔ آٹھویں کلاس میں تھیں جب ان کی شادی ہوگئی ۔ انہوں نے بتایا کہ 2007 میں کیسے ڈاکٹر فوزیہ سعید نے ان کا ہاتھ تھاما اور انہیں دو ماہ کے لیے اسلام آباد میں خصوصی تربیت فراہم کی ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی ویر جی کوہلی پر پیپلزپارٹی کے ایک رہ نماجھوٹا مقدمہ درج کروایا، خاندان میں کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ بھائی کی رہائی کے لیے جدوجہد کی ، اس دوران اتفاق سے بلاول بھٹو سے ملاقات کی ۔ انہیں جبری مشقت کے خلاف اپنی جدوجہد سے آگاہ کیا ۔ بلاول بھٹو نے مجھے بہت غور سے سنا ۔کچھ عرصے بعد انہوں نے سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا ۔ جب سینیٹ کا اجلاس ہوا تو میں اپنے والدین اور بھائی سمیت اجلاس میں شریک ہوئی ۔
نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چئیرمین ڈاکٹر خالد مسعود اور اور معروف اسکالر خورشید ندیم کا کہنا تھا کہ اس طرح کے سیمینار ہی طلبہ کو جدید سیاسی نظریات اور معاشرے میں سماجی ہم آہنگی فراہم کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر خالد مسعود کے مطابق پاکستانی عوام اور خاص کر نوجوان نسل کی اکثریت اس تصور سے اگاہ ہی نہیں کہ وہ اس ملک میں کیسا سیاسی نظام چاہتے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے اس سیاسی لاشعور کی بنیادی وجہ واضح کی۔ خورشید ندیم نے کہا کہ سماجی اور سیاسی طور طریقے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ مسلم سماج کی اس سیاسی پسماندگی کا جائزہ لیتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ بہت ساری ترقی یافتہ قومیں بھی ایک وقت میں اپنے سیاسی مستقبل کو لے کر الجھنوں کا شکار رہ چکی ہیں۔
پاکستان انسٹیٹوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام 14 اور 15 جنوری کو پہلی ورکشاپ منعقد کی گئی جسکا بنیادی مقصد نوجوانوں کو پاکستان میں مذہبی اور ثقافتی تنوع کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔ پاک انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری اسٹڈیز کے سابق چئیر مین اور معروف آئینی ماہر ظفراللہ خان اور ڈائریکٹر جنرل آف پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس ڈاکٹر فوزیہ سعید کے نے طلبہ کے ساتھ آئینی حقوق اور کردار کے بارے میں گفتگو کی ۔
ظفر اللہ خان کا ماننا تھا کہ زیادہ تر یونیورسٹی لیول کے طلباء نے آئین نے نہیں پڑھا ہوتا جبکہ آئین ایک ریاست کا دماغ ہوتا ہے۔ انہوں نے نوجوان طلباء کو آئین کے اہم نکات اور شقیں پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے طلباء کو پاکستان میں تنوع کو قبول کرنے اور معاشرتی رنگوں کو سمجھنے کا مشورہ دیا۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹرمحمد عامر رانا نے کہا کہ طلباء کو غلط فہمیوں اور تعصب کے جنگل سے نکل کر غیر جانبدار ہو کر سوچنا چاہیے ۔ان کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ سماجی رویے خیالات کی وجہ سے بدلتے ہیں نہ کہ واقعات کی وجہ سے۔ انہوں نے طلباء کو سکھایا کہ وہ کیسے حقیقت پر مبنی رائے رکھ سکتے ہیں اور کس طرح کتابیں پڑھ کر اپنے دماغوں کو کھولنے کے ساتھ سوچنے کی صلاحیتوں کو بڑھا سکتے ہیں۔
ورکشاپ کے ایک حصے میں طلبہ وطالبات کی ملاقات معاشرے میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی خواتین سے کروائی گئی ۔ عنبر رحیم شمسی، پیورش چوہدری, بسمہ شوکت اور ماوی راجپوت نے طلباء کے ساتھ اپنے معاشی تجربات شئیر کیے ۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے وہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے متاثر کن خیالات حاصل کرسکتی ہیں اور نئے کاروبار شروع کر کے معاشرے میں رول ماڈل بن سکتے ہیں ۔
سیمینار کے آخر پر معروف صحافی اور سوشل ایکٹوسٹ سبوخ سید نے حال ہی میں کرک میں ہندو سمادھی پر ہونے والے حملے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔انہوں نے طلبہ کے ساتھ رائے کیسے بنانی چاہیے کے عنوان پر گفتگو کی ۔منتظمین کا کہنا تھا کہ اگلی ورکشاپ خیبرپختونخواہ کی جامعات کے نواجوانوں کے ساتھ پشاور میں منعقد ہوگی ۔