من سب نبیا فاقتلوہ ایک جائزہ

تحریک لبیک کے جلسوں میں بچہ بچہ یہ حدیث ایک خاص ردھم میں پڑھتا نظر آتا ہے۔ اس حدیث کا مفہوم وہی ہے جو اس سے پچھلے نعرے "توہین رسالت کی ایک سزا، سر تن سے جدا” کا تھا۔ بظاہر یہ حدیث ماننے والوں کو توہین کے ملزم کے قتل کا جواز فراہم کرتی ہے۔

آئیے ذرا اس حدیث کے ماخذ اور اس پر بڑے محدثین یا علماء کی رائے دیکھ لیں ۔
امام طبرانی نے راویان کے ذکر کے بعد یہ حدیث یوں لکھی ہے ۔
سب الأنبياء قُتل، ومن سب الأصحاب جُلد۔
معجم الصغیر للطبرانی جلد 1 صفحہ نمبر 393

اس کے بعد امام اجل قاضی عیاض مالکی نے راویان کی اسناد کے ساتھ اس کو کچھ یوں رقم کیا ہے۔۔
من سب نبیا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه
الشفاء بتعریف حقوق المصطفی القسم الرابع، باب الاول، الفصل الثانی صفحہ 171

ان دونوں حضرات نے نقل کرتے ہوئے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے راویان کو ناقابل اعتبار اور جھوٹا گردانا ہے۔
اسی طرح علامہ عبد الرؤف مناوی نے بھی طبرانی کے حوالے سے فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں نقل کیا ہے اور آپ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
فیض القدیر جلد 6 صفحہ 190 حدیث نمبر 8735

توہین کے حوالے سے سب سے سخت موقف رکھنے والے امام ابن تیمیہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول میں نقل کیا ہے پر اس کو ضعیف لکھا ہے۔

اس حدیث کا پہلا راوی عبیداللہ بن محمد بن عمر بن عبدالعزیز العمری ہے۔ جس کو ابن حجر جیسے ثقہ عالم نے بالکل ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ علامہ نور الدین ہیثمی بھی یہی رائے رکھتے ہیں ۔

اس کی دوسری سند ابو ذر الہروی کے بارے میں بھی ابن تیمیہ اور امام ذہبی ایسی ہی رائے رکھتے ہیں کہ یہ صاحب قابل اعتبار نہیں ہیں۔ جبکہ پہلے راوی کو تو صریح جھوٹا لکھا ہے۔

تمام محققین کی رائے یہی ہے کہ یہ راوی حدیثیں گھڑتے تھے اور یہ حدیث ہر حوالے سے انتہائی ضعیف ہے ۔ اسی وجہ سے صحاح ستہ کے مولفین میں سے کسی نے بھی یہ حدیث قبول نہیں کی اور مستند احادیث کے کسی ذخیرے میں اس حدیث کا وجود نہیں ہے۔

اس سب کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ایک مذہبی تحریک نے اس شدت سے ایک ضعیف ترین حدیث کا پرچار کیا ہے بلکہ اسے اپنا موٹو بنا ڈالا ہے ۔ مذہبی بنیاد پر ایسا کرنا اپنی جگہ ایک جرم بلکہ گناہ ہے لیکن اس کے سیاسی ثمرات ایک متشدد تحریک کے لیے انتہائی بارآور ہیں۔

اب یہ اپنی جگہ ایک ظلم اور توہین ہے کہ نہیں کہ ایک جھوٹی روایت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس شدت سے منسوب کیا جا رہا ہے۔۔۔ اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے